ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جج نے دی دھمکی!

مدراس ہائی کورٹ میں ایک عجیب و غریب معاملے کی اطلاع ملی ہے۔ مدراس ہائی کورٹ کے کنٹروورشل جج سی۔ ایس کرنن نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سنجے کے کول کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ دائر کرنے کی دھمکی دے کر ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔کرنن نے کول کے خلاف درج فہرست ذاتوں و قبائلیوں کے مظالم ازالہ قانون کے تحت بھی معاملہ دائر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ چیف جسٹس کول کو بھیجے دو خطوں میں جسٹس کرنن نے توہین عدالت کا معاملہ داخل کئے جانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ درج فہرست و جن جاتی مظالم ازالہ ایکٹ کے تحت ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لئے قومی انسانی حقوق کمیشن میں بھی جائیں گے۔ جسٹس کرنن نے یہ بھی کہا کہ وہ سول ججوں کے انتخاب کے سلسلوں میں چیف جسٹس کے انتظامی احکامات پر خود کارروائی کرتے ہوئے روک لگا رہے ہیں۔16 اپریل کو لکھے خطے میں انہوں نے چیف جسٹس کی تقرری کئے جانے والے ججوں کے معاملے میں بھی خامیاں پائی گئی ہیں۔ نومبر2011 ء میں جسٹس کرنن نے یہ الزام لگا کر ہنگامہ کھڑا کردیا تھا کہ ساتھی جج صاحبان نے انہیں بے عزت کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا دلت ججوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب بھی وہ اپنے عزت و وقار پر زور دیتے ہیں تو ان کی امیج کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔جسٹس کرنن نے پچھلے سال جنوری میں ججوں کے انتخاب کو لیکر ہائی کورٹ کی کولیجیم کے خلاف رائے زنی کرکے تنازعہ کھڑا کردیا تھا۔ ہائی کورٹ کیلئے 12 ججوں کے سلیکشن کے لئے اپنائے گئے طریقہ کار پر سوال اٹھائے جانے والی ایک مفاد عامہ عرضی پر ڈویژن بنچ کی سماعت کئے جانے کے دوران جسٹس کرنن عدالت کیبن میں پہنچ گئے اور کہا تھا کہ کارروائی منصفانہ نہیں ہے۔ سال2013ء میں انہوں نے ایک حکم دیا تھا کے اگر کوئی جوڑا جائز عمر میں جنسی استحصال میں شامل ہوتا ہے تو اسے جائز شادی مانی جائے گی اور انہیں میاں بیوی مانا جاسکتا ہے۔ پیر کو عزت مآب سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ نے کورٹ کے چیف جسٹس سنجے کشن کول کے اختیار کو مبینہ طور پر کمتر جانتے ہوئے جسٹس کرنن کے ذریعے پاس انترم حکم پر روک لگا دی۔چیف جسٹس ایم۔ ایل ۔ دوت کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے نچلی عدالت کے افسران کی تقرری سے متعلق معاملے میں جسٹس کرنن کے احکامات کے بارے میں کہا کہ 30 اپریل 2015 کے انترم آدیش روک لگے گی۔ عدالت نے کہا کہ ہم جسٹس کو جنہوں نے مدراس ہائی کورٹ میں التوا خود کی عرضی سے اپنے آپ کی وابستگی مانتے ہوئے سارے معاملے پر خود کارروائی کی۔ اس عرضی کی سماعت یا اس میں کوئی ہدایت دینے سے گریز کرتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس سے متعلق سبھی دیگر معاملوں میں تاملناڈو کے ایگزیکٹو جوڈیشیل افسران کے سلیکشن اور تقرری کے سلسلے میں ہائی کورٹ کے ذریعے شروع کی گئی کارراوئی کو پورا کرنے میں کوئی بھی شخص یا افسر یا جسٹس اس عرضی کا نپٹارہ ہونے تک مداخلت نہیں کرے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟