جے جے بل میں ضروری ترمیم

دیش میں گھناؤنے جرائم کرنے والے 16 سے18 سال کے لڑکوں کے خلاف اب بالغوں کی طرح عام عدالت میں مقدمہ چلانے کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ جمعرات کو لوک سبھا میں جوئینائل جسٹس(کیئر اینڈ پروڈکشن آف چلڈرن) یعنی جے جے ترمیم بل پاس کرکے پورے دیش میں لڑکوں سے وابستہ قانون میں ایک نئی تبدیلی کا راستہ کھل گیا ہے۔ اب یہ بل دیش میں موجودہ جے جے قانون 2000 کی جگہ قابل تسلیم ہوگا۔ اس بل میں عدالت سنگین اور گھناؤنے جرائم کو صاف طور پر تشریح اور زمرے وار کیاگیا ہے۔ سرکار اس بات کو خاص طور پر بیان کیا ہے کہ اس نے یہ یقینی کرن کیلئے کافی توازن قائم کیا ہے بے قصور بچوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ لڑکے انصاف(لڑکوں کی دیکھ بھال اور تحفظ ) بل 2014ء کو حکومت کی جانب سے سیکشن7 کو ہٹائے جانے پر متفق ہونے کے بعد منظوری دے دی گئی۔ سب سیکشن7 کہتاتھا کہ کوئی بھی شخص جس نے16 سے18 سال کی عمر میں کسی گھناؤنے جرائم یا سنگین جرم کو انجام دیا ہے اور وہ 21 سال کی عمر پوری کرنے کے بعد پکڑا جاتا ہے تو اس ایکٹ کے تقاضوں کے تحت اس پر بالغ ہونے کی شکل میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ خواتین و اطفال ترقی وزارت نے اگست2014ء میں لوک سبھا میں جے جے ترمیم بل پیش کیا تھا۔ جسے بعد میں متعلقہ وزارت کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا۔ جس نے قانونی طور پر لڑکے کی عمر18 سال رکھنے کی سفارش کی تھی۔ حالانکہ حکومت نے کمیٹی کی سفارشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے گھناؤنے معاملوں میں لڑکے کی عمر گھٹا کر16 سال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
غور طلب ہے کہ دہلی میں ہوئے نربھیا کانڈ کے بعد جے جے قانون میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ اس کو لیکر سیاسی پارٹیں سے لیکر سماج میں الگ الگ رائے سامنے آئی۔ جہاں بچوں کے مفادات کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں اس ترمیم کے خلاف تھیں لیکن حکومت نے سماج کے لڑکوں میں گھناؤنے جرائم کے بڑھتے ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے اس سمت میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ کانگریس کے ایم پی ششی تھرور اور آر ایس پی کے ممبر ایم کے پریم چندرن جیسے لیڈروں نے عمر کی حد گھٹائے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے نئے قانون کے غلط استعمال اور اس کے تحت بچوں کی حقوق کی خلاف ورزی ہونے کا اندیشہ جتایا تھا۔ حالانکہ بل کو آگے بڑھاتے ہوئے خواتین و اطفال ترقی وزیر نے دلیل دی تھی کہ سرکار نے قانون میں ترمیم کرتے وقت پورا خیال رکھا ہے کہ بے قصور بچوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ نئے قانون کی ضرورت کو صحیح مانتے ہوئے وزیر مینکا گاندھی نے کہا قومی کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2013ء کے قریب 28 ہزار لڑکوں نے مختلف جرائم کئے اور ان میں سے 3887 نے مبینہ طور سے گھناؤنے جرائم کو انجام دیا۔ نربھیا کانڈ میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح اس لڑکے نے گھناؤنا جرم انجام دیا۔ وہ اس کیس میں ماسٹر مائنڈ تھا اور نابالغ ہونے کی وجہ سے ضروری سزا پانے سے اس لئے بچ گیا کہ وہ نو عمر ہے۔ ہم سرکار کے ان قوانین کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر کوئی لڑکابڑے جرائم کو انجام دیتا ہے تو اسے سزا بھی ویسی ہی ملنے چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟