دہلی کی گدی پر فائز اب ایک منجھے ہوئے لیڈر کی طرح کیجریوال نظر آرہے ہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ اسی کیجریوال نے اپنی پرانی غلطیوں سے کافی سبق لیا ہے اورانہیں دوہرانے سے بچ رہے ہیں۔ تاکہ کوئی دوبارہ غلط نہ ہو۔ اس کے لئے وزیراعلی کیجریوال خودہی چوکس ہے ساتھ ہی انہو  ں نے اپنے ساتھی اور ورکروں کو بھی چوکس کررہے ہیں۔ اپنی غلطیوں کو مانتے ہوئے اروند کیجریوال کئی بار شارع عام معافی مانگ چکے ہیں اور سخت محنت سے انہوں نے پرانی غلطیوں کو بدل کر مثبت رویہ اپنا لیا ہے دہلی کی شہریوں نے بھی ان کی پرانی غلطیوں کو معاف کردیا ہے بلکہ دل کھول کر انہیں ووٹ دیا اب کیجریوال کافی سنجیدگی سے کام کررہے ہیں۔ تاکہ عوام کے درمیان ایک ذمہ دار لیڈر ہونے کا پیغام جائے۔ میں آج کچھ پرانی غلطیوں اور ان میں بہتری کے بارے میں ذکر کرناچاہوں گا ایک غلطی تھی کہ پچھلی مرتبہ کیجریوال میٹرو سے سفر کرکے حلف برادری میں پہنچے تھے انہوں نے سرکاری گاڑی اور بنگلہ اور سیکورٹی لینے سے منع کردیا تھا اس کے لئے انہیں تنقید  جھیلنی پڑی تھی ایک مرتبہ وہ کوشاملی اپنی گاڑی میں سوار ہو کر حلف برادری میں پہنچے وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے لئے کیجریوال نے حلف برادری تقریب میں ا علان کیا کہ کوئی افسر اور منتری لال بتی والی گاڑی میں نہیں چلیں گے بغیر لال بتی سرکاری گاڑی سے چل سکتے ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ 4کمرے کا سرکاری مکان لوں گا تاکہ دوچار سو لوگ ان سے ملنے آئے تو انہیں بیٹھنے میںکوئی پریشانی نہ ہو۔ پچھلی بار اپوزیشن پارٹی کے کسی بھی شخص کو حلف برادری تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں بھیجی تھی۔ لیکن اس بار کیجریوال نے غیرسرکاری نہ نبھانے کاالزام لگایا تھا لیکن اس بار وزیراعظم نریندر مودی ، وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ اور ونکیا نائیڈو دہلی کے سبھی 2 ایم پی کرن بیدی تک کو دعوت بھیجی۔ حلف برداری میں سبھی سات ایم پی اور وجیندر گپتا پہنچے تھے اجے ماکن نہیں آئے۔ پچھلی بار چنائو منشور میں کئے گئے چناوی وعدے کو پورا کرنے کے لئے میعاد طے کی تھی لیکن تکنیکی وجوہات سے کم وقت میں سب پورا کرنا ناممکن ہوگیا اور عوام مایوس ہوگئی۔ عام پارٹی نے اس بار بھی چناوی نعرہ دیا تھا ’’پانچ سال کیجریوال‘‘یعنی مینڈیٹ پانچ سال مل گیا اب وہ اس میعاد میں سارے وعدے پورے کریں گے۔ کیجریوال نے میڈیا سے مخاطب ہو کر کہا کہ 24یا 48 گھنٹے میں ریزلٹ مت پوچھنا۔ پانچ سال کے اندر دہلی کو کرپشن سے پاک شہر بنانے کا اب بھی دعوہ کیا ہے پچھلے چنائو میں کیجریوال نے شیلا سرکار کے خلاف منفی کمپین زوردار طریقہ چلائی تھی لیکن اس مرتبہ لوک سبھا چنائو سے سبق لیتے ہوئے مودی اسٹائل کو ہی اپنایا انہوں نے مثبت کمپین چلائی اور اشو کی بات کی تھی جب کہ بھاجپا نے منفی کمپین چلائی اور اسکا برا اثر سامنے میں بھی آیا اروند کیجریوال نے اپنے آپ کو بدلا ہے۔یہ ا چھی بات ہے۔
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!