مودی سرکار نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی

ہم وزیراعظم نریندر مودی کے اس بیان خیرمقدم کرتے ہیں جس میں انہوں نے دو ٹوک کہا کہ ان کی سرکار کسی بھی مذہبی گروپ کو کسی کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی اور جو بھی  ایسا کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیراعظم کاکہناہے کہ ان کی حکومت سبھی مذاہب کا احترام کرتی ہے۔ مودی نے کہا میری حکومت اقلیتوں یا اکثریتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مذہبی گروپ کو دوسروں کے خلاف درپردہ طور پر نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی۔ وزیراعظم نے یہ بیان وگیان بھون میں ایک روحانی کانفرنس میں قومی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ وزیراعظم کا دیر سے ہی صحیح اس بیان کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ یہ توجہ حال ہی میں دہلی میں گرجا گھروں پر ہوئے حملے اور امریکی صدر براک اوبامہ کے دورے کے سلسلے میں کی گئی تلخ رائے زنی کے سلسلے میں دیکھاجاسکتا ہے۔ حقیقت میں دنیا بھر میں بھارت کی پہچان ایسے ملک کے طور پر ہوتی ہے جہاں وسیع طور سے مذہبی رواں داری رہی ہے۔ ویسے اچھا ہوتا کہ وزیراعظم کایہ بیان اور پہلے آجاتا خاص کر جب کچھ ہندو وادی تنظیموں کی طرف سے گھر واپسی کے نام پر زیادہ سرگرمی دکھانے کے ساتھ ہی بے تکی بیان بازی کی جارہی تھی۔ مودی سرکار کے اقتدار کے آنے کے بعد تمام ہندوتو طاقتوں کو یہ لگ رہا ہے کہ انہوں نے یہ سرکار بنائی ہے اور اب ان کا راج آگیا ہے۔ ساکشی مہاراج جیسے بھاجپا ایم پی نے تو اس طرح کے بیان دے ڈال کہ وہ سرکار کو بنا اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے ان بے لگام ہندوتنظیموں کو بروقت لگام نہیں دی اور ساتھساتھ قابل اعتراض بیان دینے والے پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف فوری طور پر سخت رویہ   اپنایا ہوتا تو شاید دہلی اسمبلی کے چناؤ کانتیجہ کچھ اور ہی ہوتا۔ بھاجپا نے سیکولرزم کو ہمیشہ اقلیتوں کی خوشآمد کے آواز کے طور پر دیکھا ہے اس لحاظ سے نریندر مودی کا یہ بیان ایک طرح سے بڑی تبدیلی کااشارہ دیتا ہے۔ اب بہتر ہوگا کہ مودی سرکار یہ یقینی بنائے کہ جو بھی تنظیم اپنے ہندوتو وادی ایجنڈوں کو لیکر ضرورت سے زیادہ سرگرم ہے ان پر حقیقت میں لگام لگے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اگر بھاجپا لیڈروں کی طرف سے دوسرے فرقوں کو نشانہ بنانے والے قابل اعتراض  بیان دئے جائے تو ان کے خلاف حقیقت میں ضروری کارروائی ہو۔ ویسے یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے دیش میں زیادہ تر پارٹیاں سیکولرزم کے نام پر خوشآمدی لوگوں کو بڑھاوا دینے والی پالیسی پر چلتی ہیں اقلیتوں کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھتی ہیں۔ وزیراعظم کے اس بیان کو دہلی اسمبلی چناؤ میں بھاجپا کو ملی ہار سے جوڑ کر نہ دیکھاجائے۔ لاکھ ٹکے  کاسوال ہے کہ کیا سنگھ اور دیگر ہندوتو تنظیمیں اپنی حرکتوں سے باز آئیں گی؟
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟