عدلیہ اور سرکار کے دائرۂ اختیارات کا مسئلہ!
سابق سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم کی سپریم کورٹ میں بطور جج تقرری کے معاملے میں مرکزی حکومت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میں ایک طرح سے ٹکراؤ کاماحول بنا ہوا ہے اس سے بچنا چاہئے۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے دائرہ اختیار کو لیکر اختلافات سامنے آئے ہیں۔ بیچ میں گوپال سبرامنیم کی بطور سپریم کورٹ جج کی تقرری۔ دراصل سپریم کورٹ کے چار ججوں کی تقرری کے لئے چیف جسٹس کی سربراہی والی منڈل (کولیجیم)نے کولکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ارون مکشا اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس آدرش کمارگوئل ،سینئر وکیل روہنٹن نریمن اور گوپال سبرامنیم کے نام سرکار کے پاس بھیجے تھے۔ سبرامنیم کو چھوڑ کر سرکار نے باقی تین ناموں پر اپنی مہر لگادی ہے۔ لیکن گوپال سبرامنیم کے نام پر مرکزی سرکار نے اعتراض جتایا ہے اور دوبارہ سے نظرثانی کے لئے اسے کولیجیم کے پاس بھیج دیا ہے۔ سرکار کے رسمی فیصلے کے پہلے ہی میڈیا نے اس بارے میں خبریں عام ہوگئی تھیں کہ مودی سرکار نہیں چاہتی ہے کہ سبرامنیم کی تقرری سپریم کورٹ کے جج کی شکل میں ہو اس لئے حکومت نے کولیجیم کے ذریعے بھیجے گئے چار ناموں میں سے تین پر اپنی تصدیق کردی لیکن سبرامنیم کے نام کو روک لیا۔ چیف جسٹس آر ایم لوڈھا اس وقت بیرون ملک تھے وطن لوٹتے ہوئے وکیلوں کے ایک پروگرام میں سابق چیف جسٹس نے اسے اس معاملے میں سرکار کے رویئے کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کردی تھی۔ انہوں نے اس بات پر خاصی حیرانی جتائے کے سرکار نے اس معاملے میں ان سے مشورہ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔فیصلہ اتنی جلد بازی میں کیا گیا کہ ان کے وطن لوٹنے کا بھی انتظار نہیں کیا گیا۔ اس سے وہ بہت خفا ہیں جبکہ طے قواعد کے مطابق سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کے لئے چیف جسٹس کی سربراہی والی کولیجیم کا ہی فیصلہ آخری ہوتا ہے لیکن حکومت نے اس کی مریادہ نہیں رکھی انہوں نے سرکار کو آگاہ کیا کہ اگر عدلیہ کی آزادی سے کھلواڑ ہوا تو سب سے پہلے میں کرسی چھوڑوں گا۔ مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد سنگھ نے چیف جسٹس لوڈھا کی رائے زنی پر سیدھے طور پر تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن اتنا ضرور کہا کہ سرکار نے صرف آئین کے ذریعے ملے اختیارات کا استعمال کیا ہے اور طے قواعد کے مطابق سرکار کسی مسئلے پر نظرثانی کیلئے کوئی معاملہ صرف ایک بار کولیجیم کے پاس بھیج سکتی ہے۔شری پرساد نے کہا کہ سرکار کے پاس یہ اختیار ہے کہ اس بارے میں اس کی رائے لی جائے۔ سرکار کے من میں عدلیہ،سپریم کورٹ اور بھارت کے چیف جسٹس کے لئے سب سے زیادہ احترام ہے۔ پرساد نے کہا میں دوہرانا چاہتاہوں کہ نریندر مودی سرکار عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور سرکار عدلیہ کی آزادی کی حمایتی ہے۔ صاف ہے سرکار اس معاملے کو اس طرح رکھنے کی کوشش کررہی ہے کہ یہاں کسی کے دائرہ اختیار کی خلاف ورزی نہ ہو لیکن یہاں سوال کسی دائرہ اختیار کا نہیں بلکہ ضمیر کے استعمال کا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ججوں کی تقرری کے عمل میں سرکار کی بھی رائے اہم ہوتی ہے۔ کسی خاص معاملے میں اس کے اعتراض کے بعد عام طور پر اسے لسٹ سے ہٹا دیا جاتا ہے لیکن جو مقرر قواعد ہیں کے مطابق سرکار ایسا کرنے سے پہلے عدلیہ کو بھروسے میں لیتی ہے۔ موجودہ معاملے میں تو اس خیر سگالی پر تعمیل نہیں ہوئی۔ دوسرے گوپال سبرامنیم کو لیکر مودی سرکار کا پہلے ہی نظریہ مختلف تھا کہ اس کے فیصلے کوقبل از وقت مانا جاسکتا ہے۔ گوپال سبرامنیم کے تئیں مودی سرکار کی رائے گجرات کے ایک فرضی مڈ بھیڑ معاملے میں بطورمخالف وکیل ان کے رول کو لیکر بنی تھی۔ ان کی کوششوں سے ہی گجرات کے سابق وزیر داخلہ امت شاہ اور اس وقت کے گجرات سرکارکو ناگزیں حالات سے گزرنا پڑاتھا۔ مودی سرکار کے پاس گوپال سبرامنیم کے خلاف خفیہ جانچ پر مبنی کوئی سنسنی خیز اطلاع تھی تو کم سے کم اسے چیف جسٹس کے ساتھ ضرور شیئرکرنا چاہئے تھا۔ حالانکہ اس معاملے میں گوپال سبرامنیم نے بھی جلد بازی کی۔ انہیں جسٹس لودھا کے وطن لوٹنے کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ میڈیا میں جانے کی اتنی جلدی نہیں دکھانی چاہئے تھی۔ بہرحال سبھی فریقین کی رائے جاننے کے بعد اس معاملے کو ختم مانا جانا چاہئے۔ ہم بس اتنا کہیں گے کہ مودی سرکار کو تھوڑی ذمہ داری سے کام لینا چاہئے تھا۔ ایسے چھوٹے موٹے قصوں سے ہی سرکار کی ساکھ بنتی اور بگرتی ہے اور عدلیہ کی آ زادی اور دائرہ اختیار سے کسی طرح کے تنازعے سے بچنا چاہئے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں