ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جائے رنگا راجن کمیٹی کی بیہودہ رپورٹ!

سابقہ یوپی اے سرکار کی فضیحت کرانے والا غریبی کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آگیا ہے۔ اس مرتبہ رنگا راجن کمیٹی کی رپورٹ میں آیا ہے کہ2011-12ء میں دیش میں 36.3 کروڑ غریب تھے۔ بھارت میں غریبی کے تجزیہ ہمیشہ تنازغے کا موضوع رہا ہے۔ جائزے کا طریقہ اور نتائج پر بہت سے ماہر اقتصادیات بھی سوال اٹھاتے رہے ہیں کہ خط افلاس کی نئی پہچان کو لیکر آنے والی اس رنگا راجن رپورٹ میں کئی ایسے مسئلے اٹھائے ہیں جن پر فکرمند ہونا فطری ہے۔ غریبی ناپنے کے اس نئے پیمانے پر رنگا راجن کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شہروں میں روزانہ 47 روپے اور گاؤں میں 32 روپے سے کم خرچ کرنے والوں کو غریب مانا جائے۔ اس سے پہلے سریش تندولکر کمیٹی نے غریبوں کا پیمانہ شہروں میں 33 روپے اور دیہات میں27 روپے طے کیا تھا۔ اس تبدیلی کے بعد دیش میں غریبوں کی تعداد بڑھ کر36.3 کروڑ یعنی کل آبادی کا 29.3 فیصدی ہوگئی ہے جبکہ سریش تندولکر کمیٹی میںیہ تعداد 26.98 کروڑ روپے یعنی 21.9 فیصدی تھی۔ غور طلب ہے کہ ستمبر 2011ء میں یوپی اے سرکار نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ شہروں میں یومیہ 35 اور دیہات میں 27 روپے سے زیادہ خرچ کرنے والے کو مرکز اور ریاستی سرکار وں کی طرف سے غریبوں کے لئے چلائی جارہی اسکیموں کا فائدہ نہیں ملے گا۔ ریزرو بینک کے سابق گورنر سی رنگا راجن کو خط افلاس کے تعین کی ذمہ داری سابق منموہن سنگھ سرکار کے زمانے میں دی گئی تھی جبکہ ان کی رپورٹ نریندر مودی سرکار کے زمانے میں ٹھیک بجٹ سے پہلے آئی ہے۔ عام بجٹ سے پہلے آئی اس سفارش نے مودی سرکار کے سامنے ایک مشکل چیلنج کھڑا کردیا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ وہ بجٹ میں اس سے کیسے نمٹتی ہے۔ غریبی کے پیمانے طے کرنے کے طریقے کو لیکر کبھی عام رائے نہیں بن پائی اور ہمیشہ بحث چلتی رہی۔ ورلڈ بینک نے 2008ء میں سوا ڈالر کی ایک گلوبل پاورٹی لائن طے کی تھی۔ اس بنیادپر بھارت میں غریبی کا پیمانہ75 روپے کے آس پاس ہونا چاہئے۔کئی ماہرین نے سوال اٹھایا ہے کہ جہاں خوردہ مہنگائی شرح 9 فیصدی کے قریب ہو وہاں ایک مہینے میں 14 روپے سے کچھ زیادہ خرچ کرنے والے کو خوشحال کیسے مانا جاسکتا ہے؟ عام تصور یہ ہے کہ سرکار ہمیشہ خط افلاس کی زندگی سے نیچے رکھنا چاہتی ہے تاکہ رعایتی اسکیموں کے دائرے میں کم لوگ آئیں اور اس پر کم بوجھ پڑے۔ حالانکہ اس رپورٹ کی ایک کڑوی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آزادی کے قریب70 برسوں کے بعد آج بھی ہر تین شہریوں میں سے ایک غریبی کی مار جھیلنے کیلئے مجبور ہے۔ ہمیں پتہ نہیں کہ یہ افسر شاہ کبھی بھی اپنے ایئر کنڈیشن کمروں سے نکل کر عام آدمی کی حالت کو دیکھتے ہوں۔ آج مہنگائی سے سبھی پریشان ہیں روز مرہ کا 100 روپے کمانے والے آدمی کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ جہاں دودھ 50 روپے لیٹر ہو وہاں 47 روپے کانمبر افسوسناک نہیں ہے تو کیا؟ آج کسانوں ،بنکروں، قرض میں دبے دیگر لوگوں کے خودکشی کرنے کی خبریں اور چوطرفہ بے روزگاروں کی بڑھتی قطار سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دیش کے زیادہ تر لوگ کس حالت میں جینے کو مجبور ہیں۔ مسلسل مہنگائی کی مار انہیں اور بھی بے حال کررہی ہے۔ غریبی کے تجزیئے میں اب بھی بہت سے ضروری خرچے نہیں جوڑے جاتے۔ علاج اور تعلیم پر آنے والا خرچ بہت سے لوگوں کو قرض لینے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر اس طرح کی مد بھی شامل کئے جائیں تو کیسی تصویر ابھرے گی؟ کیونکہ اس رپورٹ کی بنیاد خاص کر شخص کی خرید وسعت پر منحصر ہوتا ہے اس لئے مہنگائی اور افراط شر غریبوں کی تعداد بڑھانے میں سب سے اثردار ہوتے ہیں۔ مودی سرکار نے مہنگائی کے خلاف جنگی سطح پر کارروائی کا ارادہ بنایا ہے اور جمع خوروں اور خالی بازی پر سخت قانون بنانے کی بات کی ہے۔ لیکن اس کا کتنا اثر پڑتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مانسون کا روٹھنا بھی آخر غریبوں کے پیٹ پر اثر ڈالتا دکھائی دے گا کیونکہ ایک کمزور طبقے کی بڑی آبادی زرعی سیکٹر پر منحصر رہتی ہے۔ رہی بات اس رنگاراجن رپورٹ کی تو مودی سرکار بہتر ہو کہ اسے وہ ردی کی ٹوکری میں ڈال کر بنیادی اعدادو شمار کا نئے سرے سے تجزیہ کرے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟