عام بجٹ میں کڑوی دوا سے پرہیز!

وزیر اعظم نریندرمودی کی سرکار کے ایک ماہ کے اندر ان کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے عام بجٹ2014-15 میں چھوٹے ٹیکس دہندگان کیلئے اچھے دن کی جھلک دکھا دی ہے۔ درمیانے طبقہ کو راحت دیتے ہوئے بجٹ میں ڈھائی لاکھ تک کی سالانہ آمدنی والے شخص کو ٹیکس سے نجات دے دی ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنی تقریر میں کہا کہ لوگوں نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا ہے لوگ غریبی سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن یہ امید کرنا عقلمندی نہیں ہوگی کہ45 دنوں میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
دوسری طرف حکومت نے کچھ چیزوں پر پروڈکشن بڑھا دیا ہے جس سے غیر ملکی الیکٹرانکس سامان باکسائٹ، پان مثالہ، زردے کی خوشبو والا تمباکو، سگریٹ، سگار، ریڈی میڈ کپڑے ، کولڈ ڈرنکس، بوتل بند جوس وغیرہ مہنگے ہوجائیں گے۔
دیکھا جائے تو یہ بجٹ محض8 ماہ کیلئے بنایا گیا ہے اس کے ذریعہ مہنگائی کم کرنے کی توقع نہیں ہے پھر بھی سبھی طبقوں کو تھوڑا خوش کرنے کی ضرور کوشش کی گئی ہے۔ اپنی چناوی مہم میں جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے غریب عوام کی اقتصادی ترقی پر سب سے زیادہ زور دیتے ہوئے بہت سے وعدے کئے تھے اس سے مانا جارہا تھا کہ مودی سرکار کے پہلے بجٹ میں ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوئی تعمیری شکل دکھائی دے گی لیکن جیٹلی کے بجٹ میں غریب آدمی کے لئے کچھ نہیں کیا وہ تاکتا ہی رہ گیا۔ یہ سمجھنا کافی مشکل ہے دو وقت کی روٹی کیلئے سنگھرش کرنے والا خاندان ان کھاتوں سے کیا فائدہ ہوگا؟ انکم ٹیکس چھوٹ حد میں صرف پچاس ہزار کا اضافہ کی تعریف کرنے کے لئے کہا جاسکتا ہے بھاری بھرکم اکثریت سے آنے والی مودی سرکار کے پہلے بجٹ نے عام آدمی کی امیدوں پہاڑ کوہلاکر رکھ دیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ عام بجٹ میں تجویز اقدام اگلے تین چار سال میں50 سے80 لاکھ لوگوں کیلئے روزگار بڑھیں گے اور بنیادی ڈھانچہ، ٹرانسپورٹ بجلی کی پیداوار بڑھے گی۔ ا س حساب سے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ذریعہ پیش کردہ بجٹ میں ایک روپے کا حساب پچھلے سال کے بجٹ سے الگ ہے ۔ رواں بجٹ میں ایک روپے کا خرچ کا حساب کچھ برسوں میں سب سے زیادہ20 پیسہ سودکی ادائیگی پر خرچ کیا جائے گا۔ پچھلے سال یہ18 پیسہ تھا اس لحاظ سے دیش پر قرض کا بوجھ بڑھا ہے۔ مودی سرکار کی اس قرض کو کم کرنے کی چنوتی ہوگی۔ مگر مضبوط بھارت کی بنیاد رکھنے کے مقصد سے مودی سرکار نے اپنا پہلا بجٹ پیش کردیا ہے غریب اور عام آدمی کی جیب ڈھیلی نہ کرتے ہوئے طویل المدت حکمت عملی کے تحت متوازن بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بیشک مودی حکومت کا یہ پہلا بجٹ سوغاتوں کے ایک گلدستہ کی طرح ہے۔ حالانکہ یہ سوغاتیں کب تک حاصل ہوں گی۔ ہونگی بھی یا نہیں یہ تو وقت آنے پر پتہ چلے گا لیکن بجٹ میں کچھ اعلانات ایسے بھی ہیں جو کچھ برسوں کے بعد رنگ دکھانا شروع کریں گی بشرطیکہ ایمانداری سے عمل ہو جیسا کہ وزیر خزانہ نے خود ذکر کیا ان کی تجاویز کا اثر کچھ برسوں کے بعد دکھائی دے گا۔ اس سے کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار کا پہلا عام بجٹ ایک طویل المدت حکمت عملی کا حصہ ہے لہٰذا اس بجٹ سے خوشحالی کی امید کرنا بے معنی ہوگی۔ 
یہ عام بات ہے کہ بجٹ والے دن عام آدمی کی نظریں اس بات پر ٹکی ہوئی ہیں کونسی چیز سستی ہوئی کن چیزوں کے دام بڑھے ہیں ساتھ ہی ٹیکس میں کتنی چھوٹ ملی ہے۔ یہ خوشی کی بات یہ ہے کہ وزیرخزانہ نے دہلی والوں کا خیال رکھا ہے اس کو بجلی پانی میں سبسڈی دلانے کے لئے بجٹ میں700 کروڑ روپے رکھے ہیں۔ اس بجٹ سے صاف اشارہ ہے کہ مودی سرکار کی دہلی میں ضمنی چناؤ پر نظر ہے کیونکہ عام آدمی پارٹی کی سرکار نے بجلی کے دام آدھے کردئے تھے اور 700 لیٹر پانی مفت دیکر لوگوں کی واہ واہی لوٹی تھی اب اس کا فائدہ اسمبلی چناؤ میں اٹھا سکتی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے چناؤ میں مسلمانوں کے لئے ایک ہاتھ میں قرآن کے ساتھ دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر تعلیم کی بات کہی تھی ان کا اشارہ مدرسوں کی طرف تھا بجٹ میں انہوں نے مدرسوں میں جدید تعلیم اور بنکروں کی حالت سدھارنے کیلئے فنڈ رکھ کر ان کے لئے اچھے دنوں کی شروعات کردی ہے لیکن دیش کی مالی حالت بہتر بنانے کے لئے اس کو سخت فیصلے لینے ہوں گے اس لئے پیسہ کہاں سے آئے گا کیسے خرچ ہوگا اس پر کافی منتھن کیا گیا ہے کل ملاکر سوغاتوں کے ساتھ طول المدت حکمت عملی کا بجٹ مانا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!