سب سے کم عمر کے بھاجپا صدر امت شاہ!

وزیر اعظم نریندر مودی کے سب سے بھروسے مند مشیر مانے جانے والے امت شاہ اب بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدربن گئے ہیں۔ پارٹی کی بڑی پالیسی ساز یونٹ بھاجپا پارلیمانی بورڈ کے ذریعے اتفاق رائے سے فیصلہ کئے جانے کے بعد موجودہ پردھان اور اب وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے سے جہاں نریندر مودی کاسرکار اور بھاجپا تنظیم دونوں پر پوری طرح سے کنٹرول ہوگیا ہے کیونکہ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ امت شاہ مودی کے داہنے ہاتھ مانے جاتے ہیں۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی یہ اتفاق ہی ہے کہ وزیر اعظم اور حکمراں پارٹی کے چیف دونوں کی ایک ریاست یعنی ’گجرات‘ سے آتے ہیں۔ حالانکہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کے تین سال کی میعاد میں ابھی18 مہینے کا وقت باقی ہے لیکن شاید پارٹی نے ایک شخص ایک عہدے کے اصول پر پارٹی چیف کے اہم عہدے کی ذمہ داری امت شاہ کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امت شاہ وہی حکمت عملی ساز ہیں جنہوں نے اترپردیش میں پارٹی کو چناوی انچارج کی شکل میں کامیابی کا نیا ریکارڈ اپنے نام درج کرایا۔ یہاں پر 80 میں سے پارٹی کو71 سیٹیں ملی ہیں جبکہ2 سیٹیں این ڈ ی اے کی ایک اور ساتھی پارٹی کو مل گئی ہیں۔ اس طرح73 سیٹوں کی شاندار کامیابی میں امت شاہ کے چناوی مینجمنٹ کابڑا کردار مانا جاتا ہے۔ بھاجپا یوپی میں پچھلے کئی سالوں سے جس طرح سے پارٹی کی حالت تیسرے اور چوتھے نمبر پر پہنچ گئی تھی ایسے میں اتنی بڑی کامیابی ملنا ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس بڑی کامیابی کے بعد ہی طے ہوگیا تھا کہ امت شاہ کا سیاسی قد بڑھ جائے گا۔ پہلے تذکرہ یہ تھا کہ مودی سرکار میں شاہ کو کوئی بڑی ذمہ داری دی جاسکتی ہے لیکن کچھ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انہیں وزیر نہیں بنایاگیا۔ قابل غور ہے کچھ فرضی مڈ بھیڑوں کے معاملوں میں شاہ کے خلاف مقدمے عدالتوں میں التوی میں ہیں۔ اس تکنیکی رکاوٹ کی وجہ سے انہیں سرکار میں حصے داری نہیں ملی۔ امت شاہ کے پارٹی پردھان بننے سے سرکار اور تنظیم کے درمیان تال میل اچھا رہے گا کیونکہ امت شاہ کو نریند ر مودی کا ہنومان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ امت شاہ کبھی بھی مودی کے قریب ہونے کا دم نہیں بھرتے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کوتو مودی کا داہنا ہاتھ مانا جاتاہے تو انہوں نے مسکرا کرکہا آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں مودی جی کا نہ تو کوئی داہنا ہاتھ ہے اور نہ ہی بائیاں۔ وہ خود میں اتنے اہل ہیں کہ انہیں ایسی ذمہ داری کے لئے کسی کی ضرورت نہیں ہے ۔ امت شاہ کے سامنے اگلے تین مہینوں میں تین ریاستوں کے اسمبلی چناؤ پہلی چنوتی ہوگی ریاست میں مہاراشٹر، ہریانہ، جھارکھنڈ شامل ہیں۔مہاراشٹر میں بی جے پی پچھلے 15 سال سے اقتدار سے باہر ہے تو ہریانہ میں ایک دہائی سے۔ اس کے علاوہ دہلی کو لیکرانہیں اہم فیصلے لینے ہیں۔ اگلے سال بہار میں ہونے والے شاہ کے سامنے بڑی چنوتی ثابت ہوسکتے ہیں۔ پارٹی میں شاہ کی آمد سے پہلے بھاجپا اور آر ایس ایس دونوں کے درمیان وسیع بحث چھڑی ہوئی تھی کہ کیا پارٹی کی پردھانی ایک گجراتی کودی جانی چاہئے جبکہ ایک دوسرا گجراتی شخص سرکار مکا مکھیا ہے ؟ شاہ کے حق میں فیصلہ آخراس بنیاد پر لیا گیا کہ مودی سے ان کی قربت کے چلتے سرکار اور پارٹی کے درمیان بہتر تال میل قائم کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے بھگوا لہر کو مضبوطی ملے گی۔ حالانکہ چناؤ کمپین کے دوران اترپردیش میں مبینہ طور پر بھڑکیلی تقریریں کرنے کے لئے ملزم بنائے گئے شاہ کو ان کے نکتہ چینی کرنے اور بھاری پولارائزیشن والا شخص مانتے ہیں۔ سال1964ء میں ممبئی میں پیدا ہوئے امت شاہ نے بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے جڑ گئے اور 1983ء میں اپنا سیاسی سفر شروع کیا اور 31 سال میں بھاجپا کے بڑے عہدے پر پہنچ گئے۔ امت شاہ کو ہم مبارکباد دیتے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ وہ ان سب توقعات پر کھرا اتریں گے جن کے لئے مودی نے بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ امت شاہ کی تقرری پر بھاجپا کے اندر مخالف ضرور حملہ کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!