سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ:شرعی عدالت غیر قانونی

سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں صاف کردیا ہے کہ قران اور حدیث کی روشنی میں شرعی فیصلے سنانے والی شرعی عدالتیں اور ان کے احکاتما اور توؤں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ ہندوستانی آئینی نظام میں ان عدالتوں اور فتوؤں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ وکیل وشولوچن مدان نے9 سال پہلے 2005ء میں سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی داخل کرکے شرعی عدالتوں کے جواز کو چنوتی دی تھی۔ مدان نے ایسی عدالتی ختم کرنے وفتوؤں پر روک لگانے کی مانگ کی تھی۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ 25 فروری کو اس معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔اس کے بعداب پیر کے روز جسٹس چندرمولی کمار پرساد و جسٹس پناکھی چندر گھوش کی ڈویژن بنچ نے وکیل وشو لوچن مدان کی عرضی کا نپٹارہ کرتے ہوئے یہ تاریخی فیصلہ سنایا۔ بنچ نے شرعی عدالت کی طرف سے ایسے شخص کے بارے میں فتوی جاری کرنے کو غلط ٹھہرایا جس نے اس کے پاس اپیل ہی نہ کی ہو۔ عدالت نے صاف کیا کہ بے گناہوں کو سزا دینے کے لئے فتوؤں کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت ہذا نے کہا کہ شرعی عدالتوں کو قانونی منظوری حاصل نہیں ہے ایسے میں ان کا فتوی کسی کے لئے ماننا مجبوری نہیں ہے۔ ایسے زبردستی نافذ کرانے پرسخت کارروائی کی جائے گی۔ فتوی صرف ایک رائے ہے عدالت ہذا نے کہا اس کاکوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ قاضی یا مفتی کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے نافذکرائے۔ایسا برطانوی عہدمیں ہوا کرتا تھا۔ وکیل وشو لوچن مدان کی عرضی کی سماعت کے دوران آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل نے کہا تھا کہ فتوی پر عمل کے لئے لوگوں کو مجبور نہیں کیا جاتا اور یہ مفتی کی ایک رائے ہوتی ہے۔ ان کے پاس اس فتوے کی تعمیل کروانے کے لئے کوئی حق ،اختیاریا اتھارٹی نہیں ہوتی۔ وہیں یوپی حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا فتوی ایک مشورے کی طرح ہے اور اسے ماننا ضروری نہیں ہے۔ مدھیہ پردیش کی طرف سے کہا گیا تھا کہ دارالاقضاء کے فتوے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عرضی گزار کی طرف سے دلیل دی گئی تھی کہ اس طرح کی عدالت (شرعی عدالتیں) کی قانونی حیثیت نہیں ہے اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو فتوے کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی عدالتیں دیش کے عدلیہ پروسس کے یکساں چلائی جاتی ہیں۔ اس دلیل کو عدالت نے نامنظور کردیا اور کہا کہ عرضی گزار کا یہ کہنا کہ دارالقضاء اور نظام قضاء برابر عدالتیں چلا رہی ہیں غلط تشریح ہے۔ سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے بعد مسلم سماج میں اس کو لیکربحث چھڑ گئی ہے۔مشہور ڈرامہ آرٹسٹ عرفان حبیب کا کہنا ہے کہ کورٹ یہ پہلے بھی کہہ چکی ہے اس فیصلے سے کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔ کچھ لوگ فیصلے کی مخالفت کریں گے کچھ حمایت۔ اسے سماج میں تبدیلی آنے تک روکا نہیں جاسکتا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبر کمال فاروقی نے فیصلے کو پورے پس منظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ظاہر کی ہے اور کہا کہ اگر فیصلہ کسی کھاپ قانون پر دیا گیاہو تب وہ غلط ہے۔ ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا آئینی حق ہے۔ یہ سوچنا کہ دارالقضاء اور دارالافتاہ غیر قانونی ہے یہ سوچنا پوری طرح سے غلط ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے وکیل شکیل احمد سید کا کہنا ہے کہ ہم کوئی برابر کی عدالت نہیں چلا رہے ہیں۔ دو لوگوں کے جھگڑے میں اگر کوئی تیسرا آتا ہے تو شرعی عدالت کو اس پر فیصلہ نہیں سنانا چاہئے۔فتحپور مسجدکے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم نے کہا ہمارا آئین سیکولرہے اور مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی شرح کے مطابق زندگی گزر بسر کریں۔ آئین کے مطابق کوئی بھی عدالت یا جماعت اس میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ مسلم پیشوا خالد رشید فرنگی محلی کی رائے تھی کہ آئین انہیں پرسنل لاء بورڈ کے مطابق کام کرنے کا حق دیتا ہے۔ شخص کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937ء نے صاف طور پر کہا ہے کہ ان معاملوں میں جہاں دونوں فریق مسلمان ہوں معاملہ نکاح، طلاق یا دیگرامور سے وابستہ ہو تو مسلم پرسنل لاء کی دفعات کے مطابق فیصلے لئے جائیں گے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ ہم عدلیہ کے برابر کچھ بھی نہیں کررہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے قاضی کا کوئی بھی فتوی سبھی پر نافذ العمل ہے۔ سپریم کورٹ نے مظفر نگر کی عمرانہ معاملے کا بھی تذکرہ کیا جس میں سسر کے ذریعے عمران سے بدفعلی کرنے کے بعد اس سے شادی کرنے کوصحیح ٹھہرایاگیا تھا۔ کورٹ نے کہا کہ یہ فتوی ایک صحافی کی درخواست پر جاری کیا گیا جو معاملے سے پوری طرح اجنبی تھا۔ اس فتوے میں ایک متاثرہ کو ہی سزا مل گئی اسے برداشت نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر بحث چھڑنا فطری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟