جہیزہراسانی قانون کا غلط استعمال روکنے کیلئے حوصلہ افزا پہل!

سپریم کورٹ نے عام شہری کی دکھتی رگ کو پکڑا ہے۔ جہیز جیسی لعنت کو روکنے کے لئے بنایاگیا قانون کیسے کئی بار معصوموں کو ہراساں کرنے کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اس پر عدالت کی نظر گئی ہے۔ جہیز مخالف قانون ان چنندہ قانونوں میں سے ایک ہے جس کا سب سے زیادہ غلط استعمال کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیکر اس اہم قانونی کمی کو ہی دورکیا ہے۔ اس میں کئی دورائے نہیں کہ جہیز کا معاملہ بیحد حساس ہے اورجہیز کیلئے ہراساں کرنیاور پریشان کرنے سے متعلق اور غیر ضمانتی قانون کے باوجود ایسے معاملے کم نہیں ہورہے ہیں لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی اتنا ہی گمبھیر ہے کہ اس کی آڑ میں اکثر پتی اور سسرال والوں کو جبراً پھنسادیا جاتا ہے جس کی وجہ سے برسوں برس انہیں جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ حقیقت میں جہیز مخالف اس قانون کے غلط استعمال کا حال یہ ہے کہ پولیس 93 فیصد معاملوں میں توچارج شیٹ کر پاتی ہے لیکن صرف15 فیصد معاملوں میں ہی سزا ہوپاتی ہے اور باقی معاملوں میں ملزم بری ہوجاتے ہیں۔انڈین پینل کورٹ کی دفعہ498A میں درج اس قانون کی گنجائشات اتنی کڑی ہیں کہ ذکر آتے ہی متاثرہ لوگوں کی روح کانپ جاتی ہے۔اس میں رپورٹ درج ہوتے ہی پتی اور اس کے خاندان کی گرفتاری کی گنجائش ہے۔ایسے معاملوں میں ضمانت کا طریقہ بھی بیحد مشکل اورسخت ہے۔ قانون کو اتنا سخت بنانے کا مقصد جہیز جیسی لعنت کو مٹانا اور اس کی خاطر ہونے والے قتل جیسے سنگین جرم پر روک لگانا تھا۔نئی شادی شدہ خواتین کو اس ظلم سے راحت ملنا سوبھاوک تھا لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ دیکھا گیا کہ خودغرض عناصر نے اسے ہی ظلم کا اوزار بنا لیا۔ معمولی گھریلو جھگڑوں سے لیکر دیگر چھوٹی بڑی وجوہات سے اس کے غلط استعمال کے قصے سامنے آنے لگے اور متاثرہ پریوار کی عورتوں اور بچیاں تک اس کا شکار ہوکر جیل میں سالوں رہنے پر مجبور ہوئے۔ سپریم کورٹ کی دو ممبری بینچ نے اس قانون کے غلط استعمال پر فکر کرتے ہوئے سبھی ریاستی سرکاروں کو ہدایت دی ہے کہ ایسے معاملوں میں پولیس انڈین پینل کورٹ کی دفعہ298A کے تحت گرفتاری سے پہلے حقائق اچھی طرح جان لے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جہیز ہتیا کے معاملے میں کسی شخص پر مقدمہ چلانے کے لئے اسے اس وقت تک رشتہ دار نہیں مانا جاسکتا جب تک کہ شوہر سے اس کاخونی ؍شادی یا گود لئے جانے کا رشتہ نہیں ہو۔ بدھوار کو جسٹس چندر مولی کے پرساد و جسٹس پی۔ سی۔ گھوش کی بنچ نے کہا کہ ناراض بیویوں کے ذریعے شوہر اور سسرال کے لوگوں کے خلاف جہیز مخالف قانون کے غلط استعمال پر فکر جتاتے ہوئے کہا کہ پولیس ایسے معاملوں میںیکدم ملزمین کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ پولیس کو ایسا کرنے کیلئے وجہ بتانی ہوگی جس کی قانونی جانچ کی جائے گی۔ اس کیلئے سبھی ریاستی سرکاروں کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جہیز مخالف سمیت 7 سال کی سزا والے سبھی جرم میں گرفتاری کا سہارا نہ لیا جائے۔ جہیز اگر ایک سماجی برائی ہے تو بدلتے سماج کی سچائیوں کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ سماجک دباؤ رہن سہن کے طریقوں میں بدلاؤ اور مالی طور پر بہتر ہونے کی چاہت نے میاں بیوی کے رشتوں کو بھی بدلہ ہے جس کا نتیجہ جہیز کے جھوٹے معاملوں کے روپ میں دکھائی دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہمت والا تو ہے ہی لیکن اس نے ایک بڑی بحث کو بھی جنم دیا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 8 ہزار اموات ہر سال جہیز ہراسانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہیز کے خلاف لڑائی صرف قانون سے نہیں لڑی جاسکتی اس کے لئے بڑے پیمانے پر سماجی بدلاؤ کی بھی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ اس سے اچھے قانون کا غلط استعمال رک سکے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!