یوجی سی بنام وی سی صحیح کون؟

چار سالہ ڈگری کورس کو لے کریوجی سی اور دہلی یونیورسٹی کی لڑائی لگتا ہے کہ فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے یوجی سی کا دعوی ہے کہ دہلی یونیورسٹی کے 64کالجوں میں سے 57کالج تین سال کے کورس میں داخلہ دینے کو تیار ہوگئے ہیں یوجی سی نے منگل کی رات ان کالجوں کی لسٹ بھی جاری کردی ہے۔ اس سے پہلے دن بھر یوجی سی اوروی سی دینش سنگھ اس مسئلے پر آر پار کی لڑائی کے موڈ میں نظر آئے وی سی کے استعفی کااعلان تک ہوگیا جس میں بعد میں اس سے انکار کردیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی میں چار سالہ کورس کو لے کر گھمسان مچا ہوا ہے۔اس میں صحیح اور غلط کافیصلہ کرنا مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے سیکٹر اتنی بدامنی اور سیاست ہوگئی ہے سارے اشو کاحل سیاسی سہولت کے حساب سے اور اپنے ذاتی مفادات کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں وزارت تعلیم یہ کہہ رہی ہے کہ دہلی یونیورسٹی اور یو جی سی کے درمیان کچھ نہیں بدلے گا یوجی سی نے دہلی یونیورسٹی کو چار سالہ ڈگری کورس ختم کرنے کاحکم دیا تھا وزارت تعلیم یہ جتانے کی کوشش کررہی ہے کہ یوجی سی نے اپنی مختاری کی بنیاد پر یہ کورس ختم کرنے کافیصلہ کیاہے جب کہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں کہ یوجی سی نے وزارت انسانی وسائل ترقی کی خواہش سے یہ حکم جاری کیا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ وعدہ کیاتھا کہ اگر اس کی سرکار بنے گی کو چار سالہ ڈگری کورس کو پہلے کی طرح تین سالہ کردیا جائے گا۔ اس لئے بھاجپاکی سرکار نے یوجی سی نے یہ حکم جاری کردیا ہے۔ اگر یوجی سی اس کورس کے خلاف تھی تو اسے پچھلے سال ہی ایسا کرناچاہئے تھا۔ جب بھاری تنازعوں کے درمیان دہلی یونیورسٹی نے یہ فیصلہ کیاتھا صاف طور پر یہ مرکز میں پارٹی اقتدار کی تبدیلی کا اثر ہے اس میں کوئی ہرج نہیں 1986 کی قومی پالیسی میں مقرر 10+2+3کے پیٹرن کو درکنارے کر چار سالہ کورس شروع کرنے کافیصلے کی نظرثانی ہو اس میں تبدیلی ہو لیکن محض حکومت بدلنے سے اگر یوجی سی کا پورا نظریہ بدل گیا ہے تو اسے اس کے نظریے کی مختاری اور ضمیر پر سوال اٹھتا ہے اسے میں طلبہ کا مستقبل اور داخلے کا عمل ادھر میں لٹک گیا ہے یوجی سی اس کے لئے دہلی یونیورسٹی سے کم ذمے دار نہیں ہے بہرحال بڑا سوال دہلی یونیورسٹی کے فیصلے پر بھی ہے جس نے اپنی مختاری کی آڑ میں پارلیمنٹ کی طرف سے پاس قومی تعلیمی پالیسی کو نظر انداز کیا ہے۔ جو لوگ آج چار سالہ کورس کو بند کرنے کے لئے یوجی سی کے فرمان کو دہلی یونیورسٹی کے مختاری پر حملہ قرار دے رہے ہیں انہیں اس بات کا بھی جواب دینا ہوگا کیا مختاری کی آڑ میں پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس پالیسی کی خلاف ورزی کی جاسکتی ہے۔ بہرحال تین سالہ ڈگری کورس کی بحالی کے ساتھ چار سالہ کورس کے تحت پڑھ رہے ہیں طلبا کا ہے مناسب ہوگا اس تعلیم علموں کی پڑھائی ان کے نصاب کے حساب سے پوری ہو۔ دہلی یونیورسٹی ان کچھ یونیورسٹیوں میں ہے جس کی ساکھ بچی ہوئی ہے۔ لیکن حالیہ تنازعہ سے اس کی ساکھ پر آنچ آئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!