ہر کھلاڑی کیلئے سبق میسی، نیمار اور رونالڈو!

دنیا کے تین الگ الگ کونوں میں پیدا تین بچے ایک دم معمولی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ تینوں میں یکسانیت فٹبال کے تئیں جنون لیکن چیلنج بڑے بڑے۔ ایک خوفناک بیمار، دوسرا غریبی سے لاچار تو تیسرا سہولیات سے دور لیکن تینوں ڈٹے رہے ، خوب پریکٹس کی، کھیل کو نکھارا، بڑے بڑے دھرندروں کو مجبور کیا وہ انہیں اپنی ٹیم میں لے لیں۔ آج یہ تین نوجوان دنیا کے سب سے مشہور فٹبال ستارے ہیں۔ یہ ہیں ارجنٹینا کے لیانون میسی، پرتگال کے کرستیانو رونالڈو اور برازیل کے نیمار۔ 1986ء میں جس ورلڈ کپ نے میرا ڈونا کو شہرت دلائی اس کے ایک سال بعد یعنی1987ء میں ارجنٹینا کے ہی روجوریو شہر میں لیانول میسی کی پیدائش ہوئی تھی۔ اپنے کسی بھی ہم عمر بچے کی طرح میسی بھی میرا ڈونا کی طرح ہی بننا چاہتا تھا۔ 9 سال کی عمر میں میسی 15-15 منٹ تک فٹبال ان سے دوسرے بچے نہیں چھین پاتے تھے۔ جب میسی 11 سال کے تھے تو انہیں پتہ چلا کہ وہ گروتھ ہارمون کی ایسی کمی کا شکار ہیں جس کا جلد علاج نہیں کیا گیا تو ان کے جسم کی نشو نما رک جائے گی۔ علاج بیحد تکلیف دہ تھا لیکن وہ ڈٹے تھے۔ وہ روز خود اپنی زانوں پر ہارمون کا انجکشن لگا تے تھے ۔7 دن ایک پیر میں تو اگلے7 دن دوسرے پیر میں۔ میسی کے خاندان کے لئے اس علاج کا خرچ تقریباً ڈیڑھ ہزار ڈالر تھا جو ان کے لئے برداشت کرنا آسان نہیں تھا۔ میسی کے والد جارج کو ان کے ایک دوست نے بتایا کہ اسپین کے وارثی لونا کلب نوجوان فٹبال کھلاڑیوں کے علاج کا خرچ دیتا ہے۔ وہ میسی کولیکر کنبے کے ساتھ اسپین آگئے۔ کلب نے ان کا علاج کروایا ۔ اب میسی کو طے کرنا تھا کہ وہ اسپین میں رہیں گے یا ارجنٹینا لوٹ جائیں گے۔ 14 سالہ میسی نے فیصلہ سنایا کہ میں اسپین میں ہی رہوں گا اور پیشہ ور فٹبال کھلاڑی بنوں گا۔ اس کلب نے میسی کے لئے اتنا کیا کہ اب مجھے لوٹانا ہے۔ آج لیونول میسی دنیا کے نمبر 1 کھلاڑی بن گئے ہیں اور کروڑوں نوجوانوں کے آئیڈل بن گئے ہیں۔ رونالڈو 14 سال کے تھے جب انہیں اسکول سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی ٹیچر پر کرسی پھینک ماری تھی۔ اس واقعے کے بعد ان کی ماں نے کہا کہ اب اس کے سامنے یہ ہی راستہ بچا ہے کہ وہ پوری توجہ اپنی فٹبال کھیل پر دیں۔ رونالڈو اپنے گھر اور کنبے سے دور لسبن اسپورٹنگ اکادمی میں آگئے۔ یہیں ان کی ٹریننگ شروع ہوئی۔ چار سال بعد2003ء میں مینچسٹر یونائیٹڈ نے اکاڈمی کی ٹیم میں ایک دوستانہ میچ کھیلا ۔ نتیجہ تو مینچسٹر یونائیٹڈ کے حق میں رہا لیکن ونر ٹیم کے ریوفرڈیناڈ ، ریان گپس نے اپنے کوچ سر الیکس فرگ سن سے کہا کہ رونالڈو کو اپنی ٹیم میں لے لیں۔ رونالڈو ایک ٹریننگ اکادمی سے نکل کر سیدھے دنیا کے جانے مانے کلب میں شامل ہوگئے۔ کلب نے اس معجزاتی بچے کو حاصل کرنے کے لئے 17 ملین ڈالر چکائے۔ رونالڈو ایک ہارڈ ورکر شخص ہیں جو ہمیشہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک قابل دید مشین ہیں یہ ثابت کرتا ہے ان کا کیریئر ریکارڈ ۔2009ء سے ریئل میڈریڈ کی طرف سے کھیل رہے رونالڈو کہتے ہیں میرا خواب ہے میں اپنے دیش پرتگال کو ایک ورلڈ کپ جتا کر دوں۔ برازیل کے شہر سوپاؤلو کے قریب ایک مقام مونگی داکروز میں نیمارکی پرورش ہوئی۔ پہاڑی ایک ایسے سرکاری اسکول میں ہوئی جہاں نہ ٹھیک سے پڑھنے کی سہولت تھی اور نہ کھیلنے کی۔ برازیل میں فٹبال سے ہی ملتا جلتا ایک کھیل فٹسال ہے جو بہت مقبول ہے۔ جو باسکٹ بال کوٹ میں کھیلا جاتا ہے۔اس میں سارا دم خم اسی بات پر لگانا ہوتا ہے کہ ایک کوٹ سے دوسرے کوٹ میں کم اچھال والی بھاری فٹبال پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول کیسے رکھا جائے۔ ایسے ہی گیند کوتاکتے تاکتے نیمار 9 سال کی عمر تک غیر معمولی فٹبال کھلاڑی بن گئے اور اچھی فٹبال کھیلنے کی وجہ سے انہیں ساؤپاؤلو کے ایک پرائیویٹ اسکول نے وظیفہ بھی دیا۔ 16 سال کی عمر میں نیمار کو سانتوس فٹبال کلب نے پروفیشنل کھلاڑی کی شکل میں تسلیم کیا۔ دنیا کے عظیم فٹبال کھلاڑیوں میں شمار کئے جانے لگے۔ انہیں فیفا پلیئر آف ساؤتھ امریکہ چنا گیا۔ اب تک یہ مقام میراڈونا اور پلے ہی حاصل کر پائے تھے۔ نیمار کے اس کارنے کی خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے ایسا بغیر یوروپ میں کھیلے ہی حاصل کیا تھا۔ ان کی جینیس کو ٹی وی دیکھ دیکھ کر مینچسٹر یونائیٹڈ، میتاسی، ریال، میڈریڈ اور بارسلونا جیسے کلبوں میں ان کولینے کے لئے دوڑ دھوپ شروع ہوگئی۔ انہیں اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔ پچھلے7 مئی کو 190 ملین یورو کی بھاری بھرکم رقم ادا کرکے بارسلونا کلب نے انہیں اپنی ٹیم میں لیا۔ محض 22 سال کے نیمار کو آج میسی اور رونالڈو کے برابر درجہ دیا جاتا ہے۔ ان تین مہان فٹبال کھلاڑیوں کی سوانح عمری یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر آپ میں لگن ہے اور ہنر ہے اور قورت عظم ہے تو آپ کچھ بھی حاصل کرسکتے ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟