عراق میں شیعہ۔سنی لڑائی کی تاریخ پرانی ہے!

کٹر پسند تنظیم آئی ایس آئی ایس جیسے جیسے عراق کیلئے خطرہ بنتی جارہی ہے ویسے ویسے عراق کے ساتھ ساتھ دیگر دیشوں کے شیعہ مسلمانوں میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ عراق کے موجودہ حالات شیعہ۔ سنیوں کے درمیان کشیدگی بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ آخر شیعہ۔سنی لڑائی کیوں؟دنیا کے مسلمانوں میں خاص کر دو فرقہ بڑے ہیں اور ان فرقوں میں بٹے ہیں شیعہ اور سنی۔ پیغمبر حضرت محمدؐ کی وفات کے بعد ان دونوں فرقوں نے اپنے اپنے راستے الگ کرلئے۔ ان کا ابتدائی تنازعہ اس بات کو لیکر تھا کہ اب کون مسلمانوں کی رہنمائی کرے گا۔ان دونوں کے درمیان632 عیسویں میں حضرت محمدؐ کی وفات کے بعد سے ہی ان کی جا نشینی کو لیکر اختلافات ابھرے تھے جو اب تک قائم ہیں۔ حالانکہ دونوں فرقوں میں بہت کچھ تہذیبی طور پر مشترکہ ہے لیکن وہ کچھ اسلامی احادیث اور اصولوں کی تشریح الگ الگ طریقے سے کرتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی میں شیعہ کے مقابلے سنی مسلمان زیادہ ہیں۔ کچھ عرصے پہلے 2011-12 میں امریکی ادارے پیو ریسرچ سینٹرکی جانب سے 200 ملکوں میں کرائے گئے سروے کے مطابق سال 2009 ء میں کل مسلم آبادی 1 ارب57 کروڑ تھی۔ یہ کل آبادی 6 ارب 800 کروڑ کی 23 فیصدی ہوتی تھی۔ کچھ مسلمان ادارے اس سے زیادہ آبادی ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ ویسے اس میں دورائے نہیں کہ عیسائیوں کے بعد مسلم دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ مسلمانوں میں زیادہ تعداد میں متفرق فرقے ہیں جو کل مسلم آبادی کا 85 سے90 فیصد مانے جاتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دونوں فرقے صدیوں تک مل جل کر ایک ساتھ رہتے تھے اور کافی حد تک ان کے مذہبی عقیدے اور رسم و رواج ایک جیسے ہیں ابھی تک عراق میں شیعہ۔ سنیوں کے درمیان شادیاں عام ہوا کرتی تھیں۔ ان کے اختلافات ، اصول اور قوانین اور مذہبی عقائد اور مذہبی انجمنوں کو لیکر رہے لیکن حال کے کچھ برسوں میں لبنان اور شام سے لیکر عراق اور پاکستان تک کئی ملکوں میں دونوں فرقوں کے درمیان لڑائی دیکھنے کو ملی ہے اور اس میں اختلافات کی خلیج بڑھی ہے۔ سنی کون ہیں؟ سنی مسلمان خود کو اسلام کو کی قدیمی روایت کو ماننے والا کہتے ہیں اور ان کی روایت پر عمل کرتے ہیں۔ سنی روایت والے لوگوں سے مراد ہے پیغمبر حضرت ؐ یا ان کی امت کے لوگوں کی جانب سے قائم کردہ اصولوں اور شرعی ہدایت کے مطابق کام کرنا۔ قرآن پاک میں جن سبھی نبیوں کا ذکر ہے سنی ان سب کو مانتے ہیں لیکن ان کے لئے حضرت محمدؐ آخری نبی تھے۔ ان کے بعد جو بھی مسلمان پیشوایا رہنما آیا انہیں دنیاوی ہستی مانا جاتا ہے۔ سنی روایت شرعی قانون اور احادیث کے عمل پر زور دیتے ہیں۔شیعہ کون ہیں؟ اسلامی تاریخ کے آغاز میں شیعہ ایک سیاسی شاخ تھے۔لفظ’شیانِ علی‘ یعنی حضرت علی کے دوست شیعہ مانتے ہیں کہ پیغمبر حضرت محمدؐ کی وفات کے بعد ان کے داماد حضرت علیؓ کو ہی مسلم فرقے کی قیادت کرنے کا حق تھا۔ طالبان سنی گروپ ہے۔ طالبان کٹر پسند کئی بات شیعہ مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ آئے دن ہم پڑھتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں شیعوں پر طالبان نے حملہ کیا اور بسوں سے اتار کر ان کو موت کی نیند سلا دیا۔ عراقی وزیر اعظم نور المالکی پر سنیوں کونظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اقتدا ر میں رہتے ہوئے بھی حضرت علی کو ماننے والے لوگ مارے جارہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے حضرت حسین اور حسن نے بھی خلافت کا دعوی کیا تھا۔حضرت حسین میدان جنگ میں شہید ہوگئے جبکہ حسن کے بارے میں مانا جاتا ہے انہیں زہر دیا گیا تھا۔ ان واقعات میں شیعہ فرقے میں شہادت کی اہمیت کو بڑھادیا اور وہیں سے ماتم کی روایت چلی آرہی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ دنیا میں 12 سے17 کروڑ شیعہ فرقے کے لوگ رہتے ہیں جو کل مسلمانوں کی آبادی کا 10 فیصدی ہیں۔ زیادہ تر شیعہ مسلمان ایران، عراق، بحرین، آزر بائیجان اور کچھ اور ملکوں می یعنی یمن میں بھی رہتے ہیں۔ افغانستان ، بھارت، کویت، لبنان، پاکستان، قطر، شام، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات میں بھی ان کی آبادی اچھی خاصی ہے۔ تشدد کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ جن ملکوں میں سنیوں کے ہاتھوں میں اقتدار ہے وہاں شیعہ عام طور پر سماج کا سب سے غریب طبقہ ہیں۔ وہ خود کو امتیاز اور ذیادتیوں کا شکار مانتے ہیں۔ کئی سنی کٹر پسند اصولی طور پر شیعوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔
ایران میں1979ء کے انقلاب کے بعد ایک کٹر پسند اسلامی ایجنڈے کو آگے بڑھایاگیا جس میں خاص طور سے خلیجی ملکوں کی سنی حکومتوں کے لئے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا گیا۔ عراق میں سابق حکمراں مرحوم صدام حسین سنی تھے اور اسی لئے ان کے وقت میں ایران ۔عراق میں ٹکراؤ چلتا رہا۔ ایک بار جنگ بھی چھڑی۔2011ء میں عراق کے 14فیصد سنیوں نے کہا کہ وہ شیعوں کو مسلمان نہیں مانتے۔ مصر کے53 فیصد سنیوں نے بھی کہا کہ شیعہ مسلمان نہیں ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے سرغنہ ابوبکر بغدادی بھی شیعوں کو مسلمان ماننے سے انکارکرتے رہتے ہیں۔ عراق میں حالیہ جنگ کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سنی آئی ایس آئی ایس عراق شیعہ حکومت کو پلٹنا چاہتا ہے۔ ایران حکومت نے اپنی سرحدوں سے باہر شیعہ لڑاکو اور پارٹیوں کو حمایت دی ہے جبکہ خلیجی ملکوں نے بھی اسی طرح سنیوں کو بڑھاوا دیا۔ اس سے دنیا میں سنی حکومتوں اور تحریکوں کے ساتھ ان کے روابط مضبوط ہوئے ہیں۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران حزب اللہ کی فوجی سرگرمیوں کے سبب شیعوں کی سیاسی آواز مضبوطی سے دنیا کو سنائی۔ پاکستان اور افغانستان میں طالبان جیسے کٹر پسند سنی تنظیم اکثر شیعوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بناتے ہیں۔ شام اور عراق میں بھاری بحران میں شیعہ اور سنی تنازعے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان دونوں ہی ملکوں میں نوجوان سنی باغی گروپوں میں شامل ہورہے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ القاعدہ کے کٹر پسندانہ نظریئے کو مانتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ صدام کے امپیریل گارڈ کی تکڑیاں حملے کے بعد روپوش ہوگئی تھیں۔ وہ اب بھی باغیوں سے مل گئی ہیں اور حال ہی میں چھڑی خانہ جنگی میں وہ کھل کر سرکار کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہیں۔ دونوں ملکوں عراق اور شام میں نوجوان سنی باغی گروپوں میں شامل ہورہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف شیعہ فرقے کے کئی لوگ سرکار کی طرف سے یا سرکاری فوجوں کے ساتھ مل کر لڑائی لڑ رہے ہیں۔ عراق میں جو خانہ جنگی جاری ہے اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ان میں ایک بہت بڑی وجہ صدیوں سے شیعہ سنی لڑائی بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!