اکھلیش یادو کو’’دشمن‘‘ گورنر آنے کا خوف ستانے لگا!

بڑھتے جرائم کے سبب اترپردیش حکومت کو برخاست کئے جانے کی مانگ کے درمیان گورنر بی ایل جوشی کے رخصت ہونے سے سپا حکومت کی پریشانی پر پریشانی اور لکیریں کھینچتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پہلے سے ہی چنوتیوں کے بوجھ تلے اکھلیش یادو سرکار کیلئے جوشی کا استعفیٰ کوڑھ میں کھان والی کہاوت ثابت کرنے کی کوشش ثابت ہورہی ہے۔ حکومت کو اس بات کا ڈر ہے کہیں جوشی کا جانشین ان کی سماجوادی سرکار کے ساتھ دوستی نہ نبھائے تو کیا ہوگا؟ بی ۔ایل۔ جوشی78 سال پولیس کے افسر رہے ہیں۔ ان کا تقرر سابقہ کانگریس سرکار کے زمانے میں ہوا تھا اور وہ مختلف نظریوں والے دو وزرائے اعلی مایاوتی اور اکھلیش یادو کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ لکھنؤ میں پانچ برسوں کے اپنے عہد کے دوران جوشی درحقیقت سیاست سے دور رہے۔ انہوں نے تبھی سرکار کو ٹوکاجب حالات بالکل پٹری سے اترتے دکھائی دئے۔ راج بھون نے نہ سرکار سے وابستہ اپنے نظریات کو میڈیا کے سامنے ظاہر کیا اور جن وزرائے اعلی کے ساتھ جوشی نے کام کیا ان سے سیدھی بات چیت رکھی۔ سماجوادی پارٹی کی سرکار کو اس بات کا اندیشہ ہے کہیں ریاست میں قانون و نظم سمیت تمام اشو کو بنیاد بنا کر نئے گورنر آئے دن سوال جواب نہ کریں۔ راج بھون کی طرف سے اگر ایسا ہوا تو اکھلیش یادو کے لئے نئی پریشانی کھڑی ہوجائے گی جس سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ لوک سبھا چناؤ میں اترپردیش میں اتحادی اپنا دل کے ساتھ 73 سیٹیں جیتنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز میں سرکار بنانے کے بعد سے مسلسل اکھلیش یادو سرکار کی برخاستگی کی مانگ کرتی آرہی ہے۔ اب تک آدھا درجن سے زیادہ بار پارٹی کے پردیش پردھان لکشمی کانت باجپئی اور دیگر سینئر لیڈروں کے ساتھ اترپردیش کا لچر قانون و نظام اور بجلی کٹوتی کو بنیاد بنا کر سابق گورنر بی ایل جوشی سے ملاقات کر سرکار کو برخاست کرنے کے لئے میمورنڈم دے چکی ہے۔ سپا سرکار کو اس بات کا بھی ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں سماجوادی پارٹی پردھان ملائم سنگھ یادو کے وزیر اعلی رہتے ہوئے گورنر رہے ٹی وی راجیشور جیسا حال اس کا دوبارہ نہ ہو۔ اس دور میں ریاستی حکومت اور راج بھون کئی مرتبہ آمنے سامنے آگئے تھے اور دونوں کے درمیان ٹکراؤ کے حالات پیدا ہوگئے تھے۔ اب اکھلیش سرکار کی مشکلیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ریاست میں تقریباً روز ہو رہی سنسنی خیز وارداتیں پہلے ہی وزیر اعلی کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہیں۔ 15 روز کے اندر پردیش کے دو چیف سکریٹریوں ، داخلہ سکریٹری ڈاکٹر اے ۔ کے گپتا اور دیپنت سنگھل کا تبادلہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قانون و نظم کو پٹری پر لانے کے لئے سرکار کس طرح سے پریشان ہے۔ حال ہی میں بڑی تعداد میں ضلع حکام اور پولیس افسران کے تبادلے کرکے وزیر اعلی نے قانون و سسٹم کو پٹری پر لانے کی چال چلی ہے۔ اب بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات سے نمٹنے میں نئے گورنر کونسا رول ادا کرتے ہیں؟اب جوشی کے رخصت ہونے پر ریاستی سرکار کو ’’دشمن‘‘ گورنر کے آنے کا ڈر ستا رہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟