آخر ہندی کی مخالفت کیوں؟

مرکزی وزیر داخلہ کی جانب سے جاری دو سرکاری فرمانوں میں یہ ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ فیس بک ،ٹوئٹر ،بلاگ، گوگل اور یو ٹیوب جیسی سوشل ویب سائٹ پر بنے اکاؤنٹس میں ضروری طور پر ہندی اور انگریزی دونوں کا استعمال ہونا چاہئے۔ ایسی صورت میں ہندی پہلے یا اوپر لکھی ہونی چاہئے۔ فی الحال ان ویب سائٹوں پر صرف انگریزی کا استعمال ہوتا ہے۔ہندی کو فروغ دینے کیلئے سرکار نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ کوئی قدم اس قومی زبان کو غیر ہندی زبان والی ریاستوں پر تھونپنے کی شکل میں کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ تاملناڈو کی وزیر اعلی جے للتا نے وزیر اعظم کولکھے خط میں کہا یہ قانون 1963ء کے بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے۔ تاملناڈو کے لوگوں میں بے چینی ہے تاملناڈو کے لوگ زبان کی وراثت کو لیکراس کے وقار کے تئیں سنجیدہ ہیں۔ پی ایم او نے جواب میں کہا یہ کوئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی کسی غیر ہندی زبان ریاست پر ہندی تھونپنے کی کوشش ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کہا بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں بہت سے مذاہب اور زبانیں ہیں۔ ایسے میں ایک زبان کو کسی پر تھونپنا ممکن نہیں ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کچھ سیاستداں پورے معاملے کو غلط سمت دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا کرنے کی ایک علیحدہ کوشش بھی کررہے ہیں۔ اس پر تعجب نہیں کہ مودی سرکار کی جانب سے ہندی کو فروغ دینے کے فیصلے کی خبر شارے عام ہوتے ہیں اس کی مخالفت میں سب سے پہلے آواز تاملناڈو سے اٹھی۔ سیاسی طور پر پست ہوچکے ڈی ایم کے کے چیف ایم کروناندھی نے مرکزی حکومت کے فیصلے کو ایک موقعہ پرستانہ انداز میں دیکھا ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت کے فیصلے کی تشریح اس وقت کرڈالی کہ وہ غیر ہندی بولنے والے لوگوں میں امتیاز پیدا کرنے کے ساتھ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ایک شرارت آمیز تشریح ہے اور اس کا مقصد لوگوں کے جذبات بھڑکانا ہے کیونکہ تاملناڈو میں ہندی کی مخالفت کو بھنانا آسان ہے اس لئے وہاں دیگر سیاسی پارٹیوں نے ڈی ایم کے کے راستے پر چلنے میں ذرا بھی دیری نہیں لگائی۔ اقتدار کے لئے ووٹ بینک اور سیاست کے ایک گٹھ جوڑ کی ایک مثال تلاش کرنا تو ہے ہی اسے ان تمل پارٹیوں کی ہندی مخالف لڑائی میں بھی دور رکھا جاسکتا ہے۔ بڑے حیرت کی بات ہے تمل پارٹیوں کو ہندی کی شکل میں تمل کے وقا ر کا خطرہ نظر آتا ہے لیکن وہ مرہم انگریزی سے لگانا چاہتے ہیں۔ غور طلب ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جب اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بھوٹان تشریف لے گئے تھے تب انہوں نے بھوٹانی پارلیمنٹ سے ہندی میں ہی خطاب کیا تھا اور بھوٹانی ممبران پارلیمنٹ اتنے اعتماد میں مد مست ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپنی روایت توڑتے ہوئے تالیوں کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ دنیا کے تمام ملکوں میں بھی اپنی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے اوران زبانوں کا ترجمہ مطلوب زبان میں کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے ہندی کو اہمیت دے کر ایک صاف ستھری اور شاندار روایت کا آغاز کیا ہے جس کا دیش دہائیوں سے انتظار کررہا ہے۔جب پہلے ہندی کووہ اختیار ملے جو اسے بہت پہلے مل جانا چاہئے تھا۔ ہندی کے بہانے اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کے لئے بھلے ہی وہ کچھ کہیں لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی کے مقابلے میں ہندی ہی ایک رابطے کے لئے کہیں زیادہ اثر دار زبان ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟