عراق میں پھنسے ہندوستانیوں کو کیسے محفوظ نکالا جائے؟

چھاؤنی کلاں گاؤں کا ایک شخص پرمندر بھگوان کا شکریہ ادا کررہا ہے کہ عراق میں اسلامی اسٹیٹ آف عراق الشام کے انتہا پسندوں کے ذریعے اغواکئے جانے سے بال بال بچ گیا۔تحریک نور الخدا نام کی تعمیراتی کمپنی میں کام کرنے والا یہ شخص پرمندر چھٹی پر آیا ہوا تھا اور کسی وجہ سے وہ واپس نہیں جاپایا۔ عراق میں کام کررہے 17 ہزار ہندوستانیوں میں سے زیادہ تر پنجاب کے باشندے ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے قبضے میں چنگل میں پھنسے ہندوستانیوں کی تعداد 300 کے قریب ہے۔ انہیں بندوق کی نوک پر یرغمال بنالیا گیا ہے۔ایک دوسرے اندازے کے مطابق پنجاب اور ہریانہ کے قریب700 لوگ عراق میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ معلومات دونوں ریاستوں نے دی ہے۔پنجاب حکومت نے 514 لوگوں کی فہرست سونپی ہے جبکہ ہریانہ کے حکام نے بتایا عراق میں پھنسے 147 لوگوں کے بارے میں ان کے رشتے داروں نے تفصیل رکھی ہے۔ عراق میں پھنسے ہندوستانیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ موصل میں پھنسے 40ہندوستانیوں میں سے ایک بھلے ہی انتہا پسندوں کے چنگل سے نکل آیا لیکن وہ اب بھی عراق میں ہے۔ اس درمیان ایک دو لوگوں کے عراق سے لوٹ کر آنے کی اچھی خبریں مل رہی ہیں لیکن ان کے بارے میں ابھی صرف امید ہی کی جاسکتی ہے جو وطن لوٹنے کے لئے بے چین ہیں لیکن فی الحال ان کے لوٹنے کی کوئی صورت نہیں بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ عراق کے شہر میں یرغمال 39 ہندوستانیوں کی سانسیں ابھی بھی اٹکی ہوئی ہیں۔ انہیں چھڑانے کے لئے پردے کے پیچھے سے کوششیں جاری ہیں۔ اس درمیان حملے کی صورت میں آتنک وادی تنظیم آئی ایس آئی ایل کے ذریعے یرغمال ہندوستانیوں کو ڈھال بنائے جانے کی خبروں نے ہندوستانی خیمے میں بے چینی بڑھا دی ہے۔ امیدجتائی جارہی ہے کہ امریکہ کے ذریعے ہوائی حملے شروع کرنے پر یہ آتنکی ہندوستانیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ تشدد متاثرہ علاقے میں کیرل کی 46 نرسوں سمیت لوگوں کو محفوظ نکالنے کی اسکیم بھی فی الحال پروان نہیں چڑھ پا رہی ہے۔ اس درمیان عراق چھوڑ کر واپس آنے والوں کو پاسپورٹ نہ دے کر مقامی کمپنیوں نے سرکار کے لئے نئی پریشانی کھڑی کردی ہے۔ وزارت خارجہ نے معلومات دینے کے لئے 24 گھنٹے کنٹرول روم بنا دیا ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ مقامی کمپنیوں کے ذریعے ملک واپسی کے لئے سپورٹ نہ دینے کی شکایت کررہے ہیں۔ عراق کے شہر موصل پر قبضے کے لئے عراقی باغیوں کو دو ہفتے کا وقت دیا جاچکا ہے۔ وہاں کے باشندوں کا کہنا ہے کہ باغی سماج کو ایک صدی پرانے کٹھ ملا پن کے ماحول میں جھونک رہے ہیں۔ ایک مقامی باشندے نے فون پر بتایا کہ شہرپر قبضے کے دن سے ہی جہادیوں نے یہاں اسلامی قانون کواپنے ڈھنگ سے نافذ کرنا شروع کردیا ہے۔ شہر پر کنٹرول کے فوراً بعد باغیوں نے اسے اسلامی ملک کا حصہ اعلان کرتے ہوئے یہاں نئے قانون نافذ کرنے والے فرمان جاری کردئے تھے۔16 صفحات والے ان فرمانوں کے مطابق شراب، نشے کی دوا، سگریٹ کی بکری کے ساتھ گروپ میں اکٹھا نہ ہونے، ہتھیار رکھنے پر بھی روک لگا دی گئی ہے۔ عورتوں کو پورا جسم ڈھکنے والے کپڑے پہننے ،گھر کے اندر رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ موصل کے ایک عیسائی پیشوا نے بتایا کہ باغیوں نے گرجا گھر کے سامنے لگی ورزن میری کی مورتی بھی توڑ دی ہے۔عراق میں چھڑی جنگ میں شامل ہونے کے لئے بھارت کے شیعہ فرقے کی جانب سے بھی مہم چھیڑدی گئی ہے۔آل انڈیا شیعہ حسینی فنڈ کی جانب سے شہادت کے لئے فارم بھروائے جارہے ہیں۔ اس کے لئے نوجوانوں کو 40 لاکھ تک کے پیکیج کی بات کہی گئی ہے۔ زون کے 8 ضلعوں می اس طرح کی سرگرمیوں کی خبر ملنے پر پولیس اور ایل آئی یو کی نظر ہے۔ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ الہ آباد ، اوراوی، فتحپور، پرتاپ گڑھ، حمیر پور وغیرہ سمیت ضلعوں میں شہادت کے لئے فارم بھروائے جارہے ہیں۔ہاسٹلوں اورمسلم لڑکوں میں فارم بانٹے جارہے ہیں۔ کل ملاکر عراق کی حالت بہت کشیدہ بنی ہوئی ہے۔ بھارت کی ترجیح عراق میں پھنسے ہندوستانیوں کو محفوظ نکالنے کی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟