پانچ ریاستوں کے چناؤ ہیں سیمی فائنل مودی اور راہل کی ساکھ داؤ پر!

دہلی سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ ایک طرح سے لوک سبھا کا سیمی فائنل مانے جارہے ہیں جو عام چناؤ کی سمت اور پوزیشن طے کریں گے۔ حالانکہ دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بھاجپا انہیں سیمی فائنل ماننے سے انکارکررہی ہیں لیکن دونوں پارٹیوں کی ساکھ داؤ پر لگی ہے اور ساتھ ساتھ نریندرمودی اور راہل گاندھی کا وقار بھی داؤ پر لگا ہے۔ ویسے یہ ضروری نہیں جو اشارے لوک سبھا چناؤمیں ملیں وہ نتیجے لوک سبھا چناؤ میں بھی دہرائے جائیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے دولوک سبھا چناؤ میں ان ریاستوں کے چناؤ نتائج کی جھلک عام چناؤ میں دکھائی نہیں پڑی لیکن یہ ضرور ہے کہ اسمبلی چناؤ نتائج کو کانگریس اور بھاجپا اپنے اپنے طریقے سے بھنانے کی کوشش کرے گی۔ 2008ء کے اسمبلی چناؤ میں چار بڑے اسمبلی چناؤمیں مدھیہ پردیش کی کل230 سیٹوں میں بھاجپا 141، کانگریس71 سیٹیں جیتی تھی۔ چھتیس گڑھ کی 90 سیٹوں میں بھاجپا39 اور کانگریس 38۔ راجستھان کی 200 سیٹوں میں کانگریس 96، بھاجپا78 سیٹوں پر کامیاب رہی۔ دہلی کی کل 70 سیٹوں میں کانگریس42، بھاجپا 23 سیٹیں جیتی تھی۔ چلئے اب نظر ڈالتے ہیں موجودہ چارریاستوں کے امکانی نتائج پر۔ ان چارریاستوں میں کانگریس اور بھاجپا کی سیدھی ٹکر ہونے والی ہے۔ دہلی میں بیشک عام آدمی پارٹی کی موجودگی ہے لیکن میں اسے زیادہ ٹکر دینے والی سنجیدہ پارٹی نہیں مانتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ ووٹ کاٹ سکتی ہے اور ایک یا دوسیٹ جیت سکتی ہے۔ فی الحال ان چار ریاستوں میں حساب برابر ہے دو ریاستوں میں کانگریس سرکار ہے دو میں بھاجپا سرکار۔ اگر چاروں میں ہی بھاجپا کامیاب ہوتی ہے تو بھاجپا کا حوصلہ بڑھے گا۔ اس سے نہ صرف لوک سبھا چناؤ میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوگی بلکہ اس کے پی ایم امیدوار کی دعویداری مضبوط ہوگی۔ لیکن اس سے راہل گاندھی اور کانگریس کی پوزیشن ڈگمگا جائے گی۔ اس کا سیدھا اثر مرکز میں اس کی سرکار پر پڑے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس حالت میں کچھ ساتھی پارٹیاں کانگریس کا 2014ء لوک سبھا چناؤ کے دوران اس کا ساتھ چھوڑدیں لیکن اگر الٹا ہوتا ہے اور کانگریس چاروں ریاستوں میں کامیاب ہوجاتی ہے تو بھاجپا اور نریندر مودی دونوں کے لئے مصیبت ثابت ہوگی۔ کانگریس اس صورت میں مودی پر سیدھا حملہ کرے گی اور کہے گی مودی صرف میڈیا کی ایجاد ہیں جن میں کوئی دم خم نہیں ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزیر ماحولیات جے رام رمیش نے کہا تھا اگر مودی ان ریاستوں میں ہارتے ہیں تو ان کا غبارہ پھوٹ جائے گا اگر اسمبلی چناؤ کے نتائج بھاجپا کے لئے خراب ہوتے ہیں تو کانگریس 2014ء سے پہلے بھاجپا کو ختم کرنے کی بات کہے گی۔ ویسے بھاجپا اور کانگریس دونوں ہی ہار کی پوزیشن میں ہے۔ دونوں ہی اپنے بچاؤ کے لئے تاویلیں ڈھونڈنے کو تیار ہے۔بھاجپا پردھان راجناتھ سنگھ کہتے ہیں کہ اسمبلی چناؤ کے نتیجوں کا نریندر مودی کے اوپر تبصرے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کانگریس کے ترجمان م۔افضل کا کہنا ہے کہ اگر اسمبلی چناؤ کو لوک سبھا سے پہلے سیمی فائنل نہیں مانا جاسکتا اگر تین ریاستوں میں بھاجپا ایک میں کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو اس حالت میں بھی یہ ضرورمان لیا جائے گا کہ بھاجپا آگے ہے ایسے میں کانگریس کی ہار کو وہ بھنانے کی کوشش کرے گی اور چاہے گی کہ یہ مانا جائے کہ لوک سبھا چناؤ کی طرف بڑھتے ہوئے دیش کا کانگریس کے تئیں بھروسہ ختم ہوچکا ہے۔ اگر کانگریس تین ریاستوں میں کامیاب ہوتی ہے اس کے لئے نتیجے سنجیونی کی طرح کام کریں گے۔ اس صورت میں کانگریس یہ بھی کہے گی کرپشن اور مہنگائی کوئی بڑا اشو نہیں ہے اور آج بھی انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھاجپا کا پھر سے این ڈی اے بنانا مشکل ہوجائے گا کیونکہ بہت کم پارٹیاں کھل کر بھاجپا کا ساتھ دیں گے۔ اگر دو دو بارنتیجہ خراب آتا ہے تو یہ حالت ہوگی کہ ’ناہارے ہم اور نہ جیتے تم‘ لیکن ایسا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ موصولہ اشاروں سے پتہ چلتا ہے مدھیہ پردیش راجستھان میں بھاجپا کا پلڑا بھاری ہے۔ چھتیس گڑھ میں زیادہ پولنگ ہونا کانگریس کے حق میں جاسکتا ہے۔ رہی بات دہلی کی یہاں تو کانٹے کی ٹکر ہے۔ کچھ سیٹیں کانگریس کی پکی ہیں تو کچھ بھاجپا کی، باقی سیٹوں پر اصل مقابلہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ’آپ‘ پارٹی کس کے ووٹ زیادہ کاٹتی ہے۔ کل ملا کرریاستی اسمبلی چناؤ نتائج طے کریں گے2014ء لوک سبھا چناؤ کا امکانی پس منظر۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!