آروشی کوممی پاپا نے ہی مارا،عمر قید کی سزا

ہمارے وقت کی سب سے زیادہ سرخیوں میں چھائی مرڈر مسٹری آروشی۔ ہیمراج قتل کانڈ پر سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج نے مذہبی کتابوں کے سہارے آروشی کے والدین ڈاکٹر راجیش تلوار اور نپر تلوار کو آروشی ۔ہیمراج قتل کا قصوروار قراردے دیا۔ انہوں نے اپنے204 صفحات کے فیصلے میں تلوار جوڑے کو قتل کے ثبوت ضائع کرنے اور گھناؤنی حرکت کیلئے ملی بھگت کے لئے قصوروار ٹھہرایا اس لئے ان کو عمر قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔ پچھلے پانچ برسوں میں اس کیس کے بہانے نہ جانے کتنے سوال لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے رہے ہیں۔ سسٹم کولیکر اخلاقیات اور بے اخلاقی کولیکر والد اور لڑکی کے رشتوں کو لیکر جتنا ڈرامائی اتار چڑھاؤ اس مقدمے میں آیا ایسا کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ بچاؤ فریق کے طور طریقوں اور لمبی قانونی کارروائی کے چلتے ہی سوال اٹھائے جائیں۔مگر عدالت نے آخر کار تلوار کو ہی آروشی۔ ہیمراج کے قتل کا قصوروار پایا ہے۔ عدالت میں 16 مئی 2008 ء کی جس رات اس دوہرے قتل کو انجام دیا گیااس کے بعد سے حالات اور ثبوت تلوار میاں بیوی کی طرف ہی اشارہ کررہے تھے۔ سرکاری فریق کی یہ دلیل اپنے آپ میں کافی مضبوط تھی کہ جس فلیٹ میں چارلوگ ہوں اور دو کا قتل ہوجائے باقی بچے دو کو کچھ پتہ نہیں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ یقینی طور سے اس معاملے میں سی بی آئی کا کردار بھی شروع سے سوالات کے گھیرے میں رہا جس نے ایک وقت اس معاملے کو بندکرنے تک کا فیصلہ لے لیا تھا۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ فیصلے سے یوپی پولیس کی جانچ پرہی مہرلگی ہے۔ اس نے راجیش تلوار کو قتل کانڈ کا ملزم مانتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ بے شک فیصلے کے بعد نوئیڈا میں تعینات اس وقت کے پولیس افسروں نے بھلے ہی راحت کی سانس لی ہو لیکن اس کی جانچ کے طور طریقے پر سوال ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔ ملزم کی لاش ملنے کے بعد پولیس نے اس قتل کو عام معاملوں کی طرح نہیں لیا ہوتا تو بچاؤ اور مخالف فریق کی دلیلوں میں برابر کی ٹکر ہو عدالت نے کئی بار پورے کرائم سین کو انجام دلا کر راجیش اور نپر تلوار نے آئینی طریقے سے اپنا موقف رکھنے کی کوشش کی۔ سی بی آئی نے فورنسک ٹیسٹ اور حالات کے مطابق بنے ثبوتوں پر زور دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اپنی14 سالہ بیٹی آروشی کو 45 سالہ نوکر ہیمراج کے ساتھ اعتراض آمیز حالت میں دیکھ کر راجیش تلوار اپنا توازن کھو بیٹھے۔ پہلے انہوں نے ہیمراج پھر آروشی پر حملہ کرکے اس کو قتل کردیا۔ قتل کے ثبوت مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ عدالت میں جب فیصلہ آیا تو راجیش اور نپرتلوار نے ایسے کاغذ بانٹے جس میں اپنے بارے میں بے قصور ہونے کے دعوے دوہرائے گئے۔ ظاہر ہے انہیں خود کو قصوروار قرار دئے جانے کا اندیشہ رہا ہوگا تبھی تو کاغذ ساتھ لے کر آئے تھے۔ تلوار جوڑے کے بڑے رسوخ والے لوگوں سے تعلقات ہیں اس لئے قتل کی اطلاع پا کر پہنچی پولیس کو انہوں نے ایسے رعب میں لیا کہ چھان میں محض خانہ پوری بن کر رہ گئی تھی۔ پولیس اپنی بنیادی ذمہ داری بھی بھول گئی۔ اس نے موقعہ واردات کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا اور اسے سیل کر کرائم سین سے ثبوت اکھٹے کئے جاتے۔ اسی غلطی کا فائدہ اٹھا کر تلوار جوڑا اس کو ضائع کرنے میں لگ گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اب وہ سی بی آئی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ سی بی آئی پر تلوار جوڑا چاہے جتنا بھی الزام منڈھے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خود تلوار میاں بیوی نے معاملے کو سپریم کورٹ کے دروازے تک پہنچادیاتھا اور دیش کی بڑی عدالت بھی مان رہی تھی کہ اس کے خلاف معاملہ تو بنتا ہی ہے۔ بیشک اس جوڑے کے لئے انصاف کے دروازے ابھی کھلے ہیں جن سے رحم کی امید کی جاسکتی ہے۔ اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے راجیش اور نپر کو یہ سوچنے کا پورا موقعہ ملے گا کہ ان سے کہاں چوک ہوئی؟ خوشحال زندگی اور بہتر کیریئر کے یوں ختم ہونے پر دکھ تو ہوتا ہی ہے۔ ایک طرف اپنی اکیلی اولاد کو کھونا دوسری طرف اپنی باقی زندگی کو تباہ ہوتے دیکھنا ۔ کاش اپنے غصے اور پاگل پن پر تھوڑا کنٹرول کر لیتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ تلوار میاں بیوی واقعی کوئی پیشہ ور قاتل نہیں ہیں لیکن انہوں نے جو کچھ کیا اس کی مہذب سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ معاملہ کہیں نہ کہیں ان کی طرز زندگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے جہاں توقعات تیزی سے ٹوٹ رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قصوروار ٹھہرائے جانے کے باوجود تلوار میاں بیوی کا برتاؤ متاثروں جیسا ہے۔ آج سماجی اقدار نے اتنی خطرناک شکل اختیار کر لی ہے کہ ماں باپ یا تو اقتصادی مجبوری کے چلتے ایسے کام کرتے ہیں یا پھرپارٹیوں میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کے بارے میں فہرست نہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اس پر وہ توجہ نہیں دیتے رہی سہی کثر شراب اور منشیات ، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے پوری کردی ہے۔ یہ معاملہ ہمارے سماج میں آئی گراوٹ کا بھی ایک نمونہ مانا جاسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟