مغربی اترپردیش کے گنا کسانوں کو بچاؤ!

ہندوستانی معیشت کی بنیادذراعت ہے۔ بھارت کے گھریلو پروڈکٹس میں ذرعی سیکٹر میں اشتراک سے متعلق سیکٹروں کا اشتراک 2007-08 اور 2008-09 اور 2009-10 میں سلسلہ وار 17.8، 17.1 اور14.5 فیصد رہا۔ہندوستانی ذرعی پیداوارپر ہی دیش کی معیشت ٹکی ہوئی ہے۔ذراعت جس میں فصلیں پشوپالن اور ذرعی تکنیک اور ایگرو پروسسنگ شامل ہے۔ دیش کی آبادی کو نہ صرف تقویت فراہم کرتے ہیں بلکہ ایک بڑی آبادی کو روزگار بھی فراہم کرتے ہیں اور دیش کو غذا دیتے ہیں اور ان سب کے پیچھے کسان اگر خوشحال ہوگا تو دیش خوشحال ہوگا۔ اترپردیش میں کسان کی حالت اتنی خراب ہے کہ کیا بتائیں؟ میں مغربی اترپردیش میں گنا بونے والے کسانوں کی خاص کر بات کررہا ہوں۔ کسانوں کو گنے کی مناسب قیمت دلانے اور چینی صنعت کو مضبوط کرنے میں اترپردیش کی اکھلیش سرکار بری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے۔ مسئلہ سلجھانے میں ناکام وزیر اعلی اکھلیش یادو نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو خط لکھ کر مرکز پر اپنی بوکھلاہٹ دورکرنے کی کوشش کی ہے۔ چینی صنعت کا مسئلے کے لئے انہوں نے مرکز کو ہی ذمہ دار ٹھہرادیا۔گنے کی پرائی شروع کرنے کے لئے وزیر اعلی نے چینی مل مالکان کو بات چیت کیلئے بلایا تھا۔ گنے کی قیمت کو لیکر ہورہی سیاست ریاستی حکومت پر بھاری پڑ سکتی ہے۔ دراصل سرکاری مقررہ قیمت پر گنا خرید کا میلوں پر دباؤ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ فی الحال اس سے کسان بھلے ہی خوش ہو جائیں لیکن ملکوں کے پیسہ نہ ادا کرنے کی سمت میں کسانوں کی ناراضگی اور بڑھ سکتی ہے۔ وزیراعلی نے وزیراعظم کو لکھے خط میں چینی کی درآمد برآمد قاعدوں میں مناسب ترمیم کرنے کی سفارش کی ہے۔ انہوں نے خط میں چینی صنعت کے حالیہ بحران کے لئے مرکز کی پالیسیوں کو ذمہ دار مانا ہے۔ ریاستی حکومت نے گنے کی سرکاری قیمت پچھلے سال 280 روپے کوئنٹل اعلان کی تھی۔
چینی ملیں 280 روپے کوئنٹل سے زیادہ لینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی مانگ ہے رنگا راجن فارمولے کے تحت چینی کی قیمت سے گنے کی قیمت کو جوڑدیا جائے۔ یعنی چینی کے دام کا 75فیصدی گنے کی قیمت ہوگی۔ چینی صنعت اور ریاستی انتظامیہ اپنے اپنے اعلان کردہ گنے کی قیمتوں پر اڑے ہوئے ہیں۔ کسان کی گنے کی فصل تیار ہے۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا ہے وہ کرے تو کیا کرے۔ کچھ کسانوں کی یہ دوسری گنا فصل ہے اسے کاٹنے کی مجبوری ہے کیونکہ اگلی فصل بونی ہوگی۔ چینی ملوں سے ادائیگی بھی نہیں ہوپائی۔ کسی وقت اترپردیش میں50 ملیں ہوا کرتی تھیں اب مشکل سے5-6 ملیں ہی رہ گئی ہیں۔ کسانوں کا مسئلہ یہ ہے گنے کی کھیتی کی لاگت بڑھنے کے باوجود انہیں واجب قیمت نہیں مل پارہی ہے۔ دوسری طرف ملیں گنے کی قیمت اور گھٹانے کے حق میں ہیں وہ چاہتی ہیں کہ بڑی قیمت کی ادائیگی سرکاری خزانے سے کی جائے مگر ملوں کی یہ دلیل ریاستی حکومت کے گلے نہیں اترپا رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک بار پھر مغربی اترپردیش میں سیاسی چالیں چلی جارہی ہیں اگر کسان کی پرواہ نہیں ہوگی تو دیش میں کبھی خوشحال نہیںآسکتی۔ جاگو اکھلیش، کسانوں کو بچاؤ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!