ہماری جمہوریت کی سب سے بڑی دشمن ووٹ بینک کی سیاست!

ہمارے دیش میں فرقہ وارانہ فسادات میں متاثرین کو انصاف ملنے کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ حال ہی میں ہوئے مظفر نگر فساد کے بارے میں ہم جو کہتے تھے اور اسی کالم میں کئی بار قلمبند بھی کیا وہی بات عزت مآب سپریم کورٹ نے بھی کہہ دی۔ مظفر نگر فسادات نہ صرف سیاسی فساد تھے جن میں جانبداری برتی گئی اور یہ ہی جانبداری راحت دینے میں اور قصورواروں کو سزا دلانے میں بھی اترپردیش کی اکھلیش یادو سرکار کا رویہ سامنے آیا۔ مظفر نگر فساد متاثرین کے لئے معاوضے کی پالیسی میں امتیاز کو لیکر پچھلی جمعرات کو سپریم کورٹ نے اترپردیش حکومت کو سخت پھٹکار لگائی۔غور طلب ہے ریاستی سرکار کی جانب سے فساد متاثرین کے معاوضے کے سلسلے میں جاری نوٹیفکیشن میں صرف مسلم خاندانوں کا ذکرکیا گیا تھا۔ اس پر عدالت نے سخت اعتراض جتایا۔ اس کا کہنا ہے معاوضے کا حقدار کوئی خاص فرقہ نہیں بلکہ ہرمتاثرہ فرقہ ہے۔ چیف جسٹس پی سداشیوم کی سربراہی والی بنچ کے سامنے وکیل منوہر لال شرما نے یوپی حکومت کی نوٹیفکیشن میں جانبدارانہ رویہ اپنا نے کا الزام لگایا۔ اس پر بنچ نے ریاستی حکومت کے وکیل راجیو دھون سے پوچھا کیا یہ صرف ایک فرقے کو معاوضہ دینے کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا؟ اس پر دھون کے جواب پر عدالت نے گہری ناراضگی جتائی اورکہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ معاوضے کے حقدار سبھی متاثرین ہیں۔ ساتھ ہی کورٹ نے کہا اچھا تو یہ ہی ہوگا ریاستی حکومت اس نوٹیفکیشن کو فوراً واپس لے لے اور نیا نوٹیفکیشن جاری کر سبھی متاثرہ فرقوں کو معاوضہ دینے کا اعلان کرے۔ جاٹھ مہا سبھا نے مفاد عامہ کی عرضی میں26 اکتوبر کو جاری نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سرکار فساد متاثرین مسلم خاندانوں کی باز آبادکاری کے لئے90 کروڑ روپے جاری کررہی ہے۔ ہرایک خاندان کے افراد کو پانچ پانچ لاکھ روپے دئے جائیں گے۔ سرکاری وکیل نے یہ بھی کہا کہ مظفر نگر ،شاملی وغیرہ ضلعوں کے کئی مسلم خاندان واپس جانے کو تیار نہیں ہیں اس لئے ان کے لئے90 کرور روپے منظور کئے گئے ہیں۔ مظفر نگر اور آس پاس کے علاقوں میں گذشتہ7 ستمبر اور اس کے بعد ہوئے جھگڑوں میں کم ازکم61 لوگ مارے گئے جبکہ سینکڑوں لوگوں نے گھر بار چھڑ کر کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان کیمپوں میں تقریباً1800 خاندان ابھی بھی رہ رہے ہیں۔ اب تک تقریباً100 خاندانوں کو معاوضہ رقم بھی دی جاچکی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ یہ نوٹیفکیشن جاری کرنا محض ایک بھول تھی یا اس کے پیچھے کوئی سوچا سمجھا ارادہ کام کررہا ہے؟ الزام شروع سے ہی لگتے رہے ہیں کہ مظفر نگر فسادات چناوی مفاد پر مبنی تھے۔ بھاجپا نے آگرہ میں ہوئی اپنی ریلی میں نریندر مودی کے پہنچنے سے پہلے پارٹی کے ان دو ممبران کو سنمانت کیا جو فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کے الزام میں بند تھے اور ابھی ضمانت پر باہر ہیں۔ دوسری طرف سماجوادی پارٹی نے بریلی ریلی میں ملائم سنگھ یادو اور اکھلیش یادو کی موجودگی میں ایک مولانا کو سنمانت کیا جن پر بریلی میں 2010ء میں ہوئے دنگوں کا الزام ہے۔ مظفر نگر فسادات کی جانچ اور کارروائی بھی ووٹ بینک کی سیاست دکھائی پڑتی ہے جبکہ ایک فریق کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر قانونی کارروائی ہوئی۔ دوسرے فریق کو چھیڑا تک نہیں گیا۔ اس سلسلے میں رویندر کمار نے ایک نئی عرضی دائر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے اسپیشل جانچ سیل پولیس کے اختیارات اور ان پر حلف نامہ بدلنے کا دباؤ بنا رہے ہیں اس وجہ سے معاملے کی جانچ سی بی آئی سے یا کسی آزاد ایجنسی سے کروائی جائے۔ معاملہ ان کے بیٹے اور بھائی کے قتل سے جڑا ہے۔ اسی قتل کانڈ کے بعد7 ستمبر کو مظفر نگر میں دو فرقوں میں جھگڑا ہواتھا۔ ہماری جمہوریت کو ووٹ بینک کی پالیٹکس کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بھائی بھائی کو اپنی سیاست کے لئے الگ کیا جارہا ہے۔ یہ سیاستداں خاص کر یوپی میں سپا مسلموں کا بھلا نہیں کررہی ہے وہیں صدیوں سے ساتھ رہنے والے ہندو مسلمان میں دراڑ پیدا کررہی ہے۔ وہ یہ بھول جاتی ہے کہ دونوں فرقوں میں آخر واپس اپنے گھر جانا ہے،وہاں رہنا ہے دراڑ اتنی چوڑی نہ ہوجائے جس سے وہ ساتھ ساتھ نہ رہ سکیں۔ کاروبار بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے یہ سماجی دوستانہ دنگوں سے نہیں توڑا جاسکتا۔ خلیج اتنی گہری کردی ہے کہ راحت کیمپوں سے مسلم خاندان ڈر کے مارے واپس اپنے گھر جانا نہیں چاہتے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ سپا سے پوچھ رہا ہے کہ پورے معاملے میں ہمیں آخر کیا حاصل ہوا ہے؟ مسلمانوں کا کیا بھلا کیا؟ بہتر ہو سماجوادی پارٹی یہ ووٹ بینک کی سیاست بند کرے اور بھائی بھائی کو آپس میں نہ لڑائے۔ دونوں میں خلیج گہری نہ کرے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟