سنت شوبھن سرکار کے آگے یوں ہی نہیں جھکے نریندر مودی!

بھاجپا کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی کو اس چناوی موسم میں تھوڑا سوچ سمجھ کر کوئی بھی بیان دیناچاہئے۔ بیان دے کر کسی بھی اشو پر پلٹنا نہ تو ان کو زیب دیتا ہے اور نہ ہی وزیراعظم امیدواری کو۔ تازہ مثال ڈونڈیا کھیڑا میں سونے کی کھدائی معاملے کی ہے۔ چنئی میں گذشتہ جمعہ کو ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا تھا کہ دنیا ہمارے بے تکے کام پر ہنس رہی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کسی کو خواب آیا اور سرکار نے کھدائی کا کام شروع کردیا۔ چوروں اور لٹیروں نے بھارت کے پیسے کو بیرونی بینکوں میں جمع کررکھا ہے جو 1 ہزار ٹن سونے سے زیادہ ہے۔ اگر آپ (سرکار) یہ پیسہ واپس لاتی ہے تب آپ کو سونے کے لئے کھدائی کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مودی کے تبصرے سے سنت شوبھن سرکار خاصے ناراض ہوگئے ہیں۔ ان کے ماننے والے اوم جی نے اس بیان کے خلاف مودی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا ہے’ پریہ نریندر بھائی آپ کا کانپور کی سرزمین پر خیر مقدم ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے مرکزی سرکار اور محترمہ سونیا گاندھی پر حملے کرنے کی جلد بازی میں سنتوں کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ہم رگھوونشی ہیں ۔شوبھن سرکار رگھوونشی شرومنی ہم اپنے وچن پر اٹل ہیں۔ہم اس اشو سمیت سبھی معاملوں پر آپ سے بحث کرنا چاہتے ہیں‘۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ پیر کو اپنے رخ پر پلٹتے ہوئے نریندرمودی نے ٹوئٹ کر شوبھن سرکار کی تعریف کے پل باندھ دئے۔ انہوں نے لکھا ہے سنت شوبھن سرکار کے تئیں برسوں سے لاکھوں لوگوں کی شردھا وابستہ ہے۔ میں ان کی تپسیا اور قربانی کو پرنام کرتا ہوں۔ اتنا ہی نہیں مودی نے کانپور سے بھاجپا ممبر اسمبلی ستیش موہانا کو خاص طور پر سنت شوبھن کے پاس بھجوایا۔ ستیش ماہانا مودی کی طرف سے اناؤ کے بکسر کے واقع آشرم میں شوبھن سرکار سے ملے۔ انہوں نے سنت کو بتایا کے نریندر مودی کا نظریہ ان کے وقار پر ٹھیس پہنچانا نہیں تھا۔ سنت کے چیلے سوامی اوم جی کے مطابق ملاقات کے دوران سنت نے مودی کو معاف کردیا۔ شوبھن سرکار کے خواب کے آگے سرکارہکی ہی نہیں پوری سیاست ہی سرخم ہے۔ بھاجپا کے پی ایم اِن ویٹنگ نریندر مودی کے تیور محض چار دنوں میں ہیں بابا کے سیاسی تیروں کے آگے ڈھیلے پڑ گئے۔ بابا کے اعلان پر کانگریس۔ سپا سے لیکر بسپا تک کی زبان ان کے خلاف اب تک نہیں ہل پائی۔ دراصل یہ اثر بابا کی شخصیت سے کہیں زیادہ اس حلقے میں ان کے اثر کا ہے جو پارٹیوں کے ووٹ پر چوٹ کرسکتا ہے۔ اناؤ ،فتحپور، رائے بریلی کی حدود آپس میں ملتی ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں بابا کے چمتکار کے قصے مشہور ہیں۔ کانپور میں کئی گاڑیوں پر شوبھن سرکار کے نعرے لکھے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں چناوی آہٹ نے سیاست دونوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی بابا کا جھنڈا اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ اناؤ لوک سبھا سیٹ پر فی الحال کانگریس سے انو ٹنڈن ہیں۔ بابا کی ڈوڈیا کھیڑا میں سونے کے خواب کے پہلے خط کوانہوں نے ہی سرکار تک پہنچایا تھا۔ فتح پور کی سیٹ سپا کے پاس ہے جبکہ راہئے بریلی کی سیٹ سونیا کے پاس ہے اس لئے کانگریس بھی چپ ہے سپا اور بسپا کے نمائندے بھی سنت کے چکر لگا رہے ہیں۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی پارٹی آج کی تاریخ میں سنت شوبھن سرکار سے پنگا مول نہیں لینا چاہتی۔ شاید اسی سیاسی مجبوری کے چلتے نریندر مودی کو یو ٹرن لینا پڑا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟