آخر کار ڈاکٹر ہرش وردھن کو بطور وزیر اعلی پروجیکٹ کرنے کا فیصلہ ہوہی گیا!

پچھلے کئی دنوں سے دہلی میں بی جے پی میں وزیراعلی کی امیدوار ی کو لے کر گھمسان مچا ہوا ہے۔ راجدھانی میں تمام تجزیئے اور حالات معقول ہونے کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی کا دہلی کے اقتدار پر قابض ہونے میں ایک بڑی مشکل وزیرا علی کی امیدواری کا پروجیکٹ نہ ہونا ۔ اس کی وجہ سے پارٹی کے اندر زبردست لڑائی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ پارٹی ایک بار پھر فیصلہ کن موڑ پر آپسی گروپ بندی میں اس طرح الجھتی جارہی تھی کہ پارٹی کے ورکروں کو بھی ڈر ستانے لگا کے کہیں ہاتھ میں آئی بازی کانگریس پھر سے چھین نہ لے جائے اور پارٹی کے سرکردہ لیڈر وزیراعلی کے لئے ہی لڑتے نہ رہ جائیں۔ سارا جھگڑا پردیش پردھان وجے گوئل نے کھڑا کررکھا تھا۔ وہ اس بات کے لئے اڑ گئے تھے کہ پردیش صدر ہونے کے ناطے انہوں نے پچھلے کچھ مہینوں میں بہت محنت کی ہے۔ پارٹی کو کھڑا کردیا ہے اور تمام سرووں میں انہیں بی جے پی کے وزیر اعلی کے طور پر پروجیکٹ کیا جارہا ہے۔ اسی لئے وہ ہی سی ایم امیدوار ہونے چاہئیں۔ انہوں نے تمام طرح کے دباؤ اور دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔ اگر انہیں وزیر اعلی پروجیکٹ نہیں کیا تو پارٹی کو بھاری نقصان ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ پارٹی اعلی کمان ڈاکٹر ہرش وردھن کو سی ایم امیدوار پروجیکٹ کرنا چاہتا ہے۔ آر ایس ایس بھی ہرش وردھن کے حق میں ہے۔ اس پورے واقعے کو کانگریس مزے سے دیکھ رہی تھی اور اسے امید تھی کہ یہ معاملہ الجھا ہی رہے گا اور اس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا لیکن لگتا ہے اب معاملہ سلجھتا دکھائی دے رہا ہے۔ پیر کو پارٹی اعلی کمان کے ذریعے وزیر اعلی کی امیدوار کی شکل میں اپنا نام اعلان نہ ہوتے دیکھ کر باغی تیور اپنائے بھاجپا کے پردیش صدر وجے گوئل کے تیور پارٹی کے قومی صدر راجناتھ سنگھ کے سمجھانے کے بعد فی الحال ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔ دہلی میں بی جے پی کا سی ایم امیدوار کون ہوگا اس کا بھلے ہی ابھی اعلان نہ ہوا لیکن تقریباً طے ہوگیا ہے کہ ڈاکٹرہرش وردھن ہی امیدوار ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اسمبلی چناؤ میں محض ڈیڑھ مہینے پہلے بی جے پی کو یہ فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟ اس کے پیچھے دو وجہ ہیں۔ پہلا عام آدمی پارٹی کا اثر کم کرنا ،دوسرا صاف ستھری ساکھ کے لیڈرکو پارٹی کے چہرے کی شکل میں پیش کرنا۔ بی جے پی مان رہی ہے کہ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی سیدھے کانگریس کو فائدہ پہنچائے گی۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی لڑائی میں بی جے پی پچھڑتی لگ رہی تھی۔ اس کی ایک وجہ دہلی بی جے پی کا کوئی چہرہ نہ ہونا مانا جارہا ہے۔ اور یہ پیغام جارہا تھا کہ مرکز کی طرح دہلی میں بھی نیتاؤں میں آپسی رسہ کشی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ جس طرح نریندر مودی کے مرکز میں آنے سے سارے لیڈر لائن پرآگئے ہیں اب نہ تو کوئی دوسری لائن کے لیڈرنہیں ہیں۔ اب پہلی لائن میں ویسے ہی ڈاکٹر ہرش وردھن کا فیصلہ ہونے سے اب دہلی بی جے پی میں گھمسان ختم ہونے کا امکان دکھائی پڑنے لگا ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں نے وجے گوئل کے سامنے صاف کردیا کہ اگر ان کے حمایتیوں کی طرف سے ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو ان کا دہلی بی جے پی صدر بنے رہنا بھی مشکل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ پارٹی کا خیال ہے کہ گوئل کوئی منفی قدم نہیں اٹھائیں گے لیکن گوئل نے اعلان کردیا ہے کہ وہ سی ایم کے امیدوار کی دوڑ میں نہیں ہیں۔ ڈاکٹر ہرش وردھن صاف ستھری ساکھ کے مقبول لیڈر ہیں۔ اگر ان کا نام فائنل ہوتا ہے تو دہلی بی جے پی کے لئے اچھا قدم ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟