100 سال پرانا پرکھا ہوا دوست روس!

آج کل وزیر اعظم منموہن سنگھ روس اور چین کے دورہ پر گئے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم کے طور پر شایدان کا یہ آخری دورہ ہوگا کیونکہ کولمبو میں ہورہی کامن ویلتھ ممالک کی چوٹی کانفرنس میں سیاسی اسباب کے سبب ان کے شامل ہونے پر خدشہ مانا جارہا ہے۔ ادھر عام چناؤ کے محض چھ مہینے باقی ہیں۔ اس کے بعد کس کی سرکار بنے کی، کون وزیر اعظم بنے گا اس کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے لیکن روس کا دورہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل رہا۔ روس ہمارا پرکھا ہوا دوست ہے ، جس نے ہماری ضرورت پڑنے پر ساتھ دیا۔ وہ امریکہ سمیت سبھی مغربی ممالک کے اثر میں نہ آتے ہوئے اپنا نقطہ نظر رکھتا ہے۔وہ ان کی دھونس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر قائم رہتا ہے۔دونوں ملکوں کے نمائندہ وفد کے درمیان پیرکو ماسکو کے کرملن پیلس میں چوٹی مذاکرات ہوئے۔ قریب90 منٹ سے زیادہ چلی اس ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ یہ منموہن اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ پانچویں اور دونوں کے درمیان 14 ویں سالانہ ملاقات تھی۔ اس میں دہشت گردی سے نمٹنے میں تعاون بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ بیان میں ڈیفنس اینرجی، وسیع تکنیکی صنعت اور سرمایہ کاری خلا اور سائنس تعلیم ،کلچر اور سیاحت کے سیکٹر میں تعاون بڑھانے کی بات کہی گئی ہے جس کی تعریف کی جانی چاہئے۔ صدر پوتن نے دفاعی تعاون میں خاص کر پانچویں پیڑھی کے جنگی جہاز اور کثیر المقصد ٹرانسپورٹ جہاز کو مشترکہ طور سے بنانے کا بھی ذکر کیا۔ قابل ذکر ہے کہ بھارت کی فوجی تیاری و ہتھیار ،جہاز اور ٹینک وغیرہ میں بہت زیادہ روسی سازو سامان کا استعمال ہوتا ہے۔ پوتن نے اس موقعے پر دونوں ملکوں کے بیچ 100 برس سے زیادہ پرانی دوستی کی علامت کا تحفہ دے کر وزیر اعظم منموہن سنگھ کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ تحفہ کچھ پینٹنگ اور سکوں کی شکل میں تھا۔ سال1890-91ء کے درمیان بھارت کے ان شہروں کے دورہ کرنے والے نیکولس دوم نے یہ آرٹ ورک تیار کیا۔ یہ بھارت کے مہاراجاؤں پر بنائی گئی پینٹنگ ہیں۔ پوتن نے 16 ویں صدی کے مغل دور کے کچھ سکے بھی منموہن سنگھ کو پیش کئے۔ روس سے ہمارا دفاعی تعاون بہت پرانا ہے اور وقت کا پرکھا ہوا دوست ہے۔ اس رشتے میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آگئی ہے اور روس اب ڈیفنس سازوسامان کا محض سپلائر ہی نہیں بلکہ ہمارا سانجھیدار بن کر مشترکہ طور سے پیداواری میں لگا ہوا ہے۔ دونوں دیش مل کر جنگی جہازوں کی پانچویں نسل تیار کررہے ہیں اور ایسے ٹرانسپورٹ جہازوں پر کام ہورہا ہے جن کا استعمال کئی طرح سے کیا جاسکتا ہے۔ تاملناڈو میں کنڈن کلم ایٹومک بجلی گھر میں دو اور بھٹیاں لگانے کے فیصلے پر منموہن سنگھ اور پوتن نے افسران کو ہدایت دی کے وہ کنڈن کلم پروجیکٹ کی ذمہ داری سے جڑے ان اشوز کو جلد سے جلد سلجھایا جائے جس کے سبب ریئکٹر کی تیسری اور چوتھی یونٹ پر کام رکا ہوا ہے۔ آج کے عالمی پس منظر میں بھارت اور روس کا ایک ساتھ ہونا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ کی بالادستی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اکیلے کسی دیش کے لئے اس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر روس، چین اور بھارت تینوں مل کر کام کریں تبھی کچھ حد تک امریکہ کے دبدبے کا مقابلہ ہوسکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے وزیر اعظم کا دورۂ روس اور چین اہمیت کا حامل ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟