ہرش وردھن کے سامنے بڑی چنوتی بھاجپا کو متحد کر چناؤ لڑوانا!

کئی دنوں کی جدوجہد کے بعد آخر کار بھارتیہ جنتا پارٹی نے دہلی کے اسمبلی چناؤ میں سی ایم امیدوار کا فیصلہ کر ہی لیا ہے۔ بھاجپا پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ کے بعد ڈاکٹر ہرش وردھن کو بھاجپا کی جانب سے سی ایم اِن ویٹنگ اعلان کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد مکھیہ منتری کی امیدواری کو لیکر ہائی وولٹیج ڈرامے کا ہرش وردھن کے نام کے ساتھ ڈراپ سین ہوگیا۔اسمبلی چناؤ کیلئے ووٹنگ سے ٹھیک42 دن پہلے ڈاکٹر ہرش وردھن کے سر پر بندھے کانٹوں کے اس تاج اور پردیش پردھان وجے گوئل کو منانے کے پیچھے کی کہانی کچھ کم دلچسپ نہیں ہے۔ وجے گوئل آخری لمحے تک یہ رٹ لگائے ہوئے تھے کہ وہ اس عہدے کے لئے سب سے موزوں دعویدار ہیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر ہٹیں گے نہیں اور انہوں نے طرح طرح کی دھمکیاں بھی دیں اور پارٹی پر دباؤ بھی بنایا لیکن آخر کار نریندر مودی ،ارون جیٹلی اور آر ایس ایس کے سامنے انہیں اپنی ضد کو ترک کرنا پڑا۔ اس پورے ڈرامے میں سب سے زیادہ کرکری پارٹی صدر راجناتھ سنگھ کی ہوئی۔ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ڈاکٹر ہرش وردھن کے نام پر متفق ہونا پڑا۔ ڈاکٹر ہرش وردھن ایک صاف ستھری ،ایماندار ساکھ کے لیڈر ہیں۔ ان کا اب تک کا ریکارڈ اچھا ہے۔ مسلسل چار بار اسمبلی چناؤ جیتنے والے ڈاکٹر ہرش وردھن 1993ء میں جب مدن لال کھرانہ کی کیبنٹ میں وزیر صحت تھے تو آپ نے ہی دہلی میں پلس پولیوپروگرام کی شروعات کر ساری دنیا میں نام کمایا تھا۔ اقوام متحدہ تک نے اس مہم کی تعریف کی تھی۔ ان کے مقابلے بیشک وجے گوئل ایک بہت وفادار اور سرکردہ لیڈر ہیں جو اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کادم لگاکر میدان میں اترتے ہیں لیکن ان کی ساکھ ڈاکٹر صاحب جیسی نہیں ہے۔جب اسمبلی چناؤ اورلوک سبھا چناؤ کرپشن اور گھوٹالوں کے خلاف لڑا جانا ہے تو لیڈر بھی صاف ستھرا ہونا چاہئے تو ہی بہتر رہتا ہے۔ اس لئے ایک صاف ستھری اور ایماندار ساکھ کی شخصیت ڈاکٹر ہرش وردھن کا انتخاب کیا گیا۔ ڈاکٹر ہرش وردھن کے لئے یہ عہدہ کانٹوں کے تاج سے کم نہیں ہے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج گروپ میں بٹی بھاجپا کو متحدہ کرنا ہوگا۔سب سے پہلا چیلنج تو ٹکٹوں کے بٹوارے کو لیکر ہونا ہے۔ وجے گوئل نے اپنی ٹیم تک بنا لی ہے۔ ضلع پردھان سے لیکر بلاک صدر تک ان کے آدمی چنے جاچکے ہیں۔ وہ چاہیں گے ان کے وفاداروں کو زیادہ سے زیادہ ٹکٹ ملے۔ بھاجپا کی سینئر لیڈر شپ کا خیال ہے کہ لگتا ہے تین بار پارٹی کی ہار کے بعد ڈاکٹر ہرش وردھن4 دسمبر کو ہونے والے چناؤ میں اس بار پارٹی کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کی مانیں تو جس طرح اس بار بھاجپا نے پردیش صدر وجے گوئل کو پیچھے کرکے ڈاکٹر ہرش وردھن کو آگے بڑھایا ہے اسی طرح پہلی بار 2008ء میں اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے پارٹی نے پروفیسر وجے کمار ملہوترہ کو امیدوار اعلان کیا تھا۔ تب ہرش وردھن پردیش صدر ہوا کرتے تھے لہٰذا جو موقعہ انہیں پچھلی بار نہیں مل پایا اس بار پارٹی نے انہیں موقعہ دے دیا۔ 1993 ء میں دہلی میں بنی بھاجپا کی پہلی سرکار میں وزیر صحت بنائے گئے ہرش وردھن کے ساتھ کام کرچکے ان کے ساتھی اور اپوزیشن کے ساتھی بھی ان کی انتظامی سوجھ بوجھ کے قائل ہیں۔ حالانکہ بھاجپا کے نیتا ذاتی طور پر یہ کہہ رہے ہیں یہ اعلان کچھ اور پہلے کیا جانا چاہئے تھا۔ دہلی میں بھاجپا کی جیت کے لئے بیشک ماحول ٹھیک ہے لیکن دو باتیں اہمیت رکھیں گی۔ سب سے پہلے تویہ کہ بھاجپا جیت کے لئے پارٹی جتانے والے، کام کرنے والے، صاف ستھری ساکھ والے امیدواروں کو چناؤ میدان میں اتارے۔ ایسے میں یہ دیکھنا اہمیت کا حامل ہوگا کہ خود ہرش وردھن ٹکٹوں کے بٹوارے میں کتنا رول ادا کرپاتے ہیں؟ دوسری بات یہ ہے پارٹی کے سینئر لیڈروں کے بیچ طویل عرصے سے کھینچ تان چلی آرہی ہے۔ اندرونی رسہ کشی تو ضرور ہوگی۔ ایسے میں پورے کنبے کو ایک ساتھ لیکر مضبوطی سے کانگریس سے مقابلہ کرنے کی چنوتی بھی ان کے سامنے ہوگی۔ ووٹروں کو پولنگ مرکزوں میں ووٹ ڈالنے کے لئے پہنچانا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ شاید یہ مسئلہ اس بار نہ آئے کیونکہ آر ایس ایس ہرش وردھن کی پوری حمایت کررہا ہے۔ ہرش وردھن کے نام کے اعلان پر وزیر اعلی شیلادیکشت نے تو فی الحال کوئی رائے زنی نہیں کی لیکن ’آپ‘ پارٹی کے صدر اروند کیجریوال بولنے سے نہیں کترائے اور انہوں نے ہرش وردھن کو منموہن سنگھ بتاتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا ہے کیا دہلی بھاجپا میں ہرش وردھن ۔منموہن سنگھ ہیں؟ انہوں نے کہا کرپٹ کانگریس نے مرکز میں سنگھ کو اپناچہرہ بنایا اور کرپٹ بھاجپا نے اب دہلی میں ہرش وردھن کو اپنا چہرہ بنایا ہے۔’آپ‘ پارٹی کے ترجمان منیش سسودیا نے کہا 2010ء میں ہرش وردھن نے شیلا دیکشت کی تعریف کی تھی اور کہا تھا دہلی کے شہری نے انہیں بطور وزیر اعلی پا کر خوش نصیب ہیں۔ اب وہ ان کے خلاف چناؤ کیوں لڑ رہے ہیں؟ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ایک بار ڈاکٹر ہرش وردھن کے بارے میں کہا تھا کہ عام لوگوں کی خدمت کے لئے اپنے نرسنگ ہوم و تجربے کا استعمال کرنے میں انتظامی مقصد کے ساتھ سیاست میں شامل ہوئے ہیں و ہ یقیناًکامیاب رہیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟