سی بی آئی کھولے گی راڈیا ٹیپ کی سچائی معاملہ محض ٹو جی اسپیکٹرم تک محدود نہیں!

ایک وقت تھا جب کارپوریٹ دنیا میں لابسٹ نیرا راڈیا کی طوطی بولا کرتی تھی۔ پنجابی نژاد ہندوستانی شوہر کے یہاں 1959 ء میں نیروبی کینیا میں پیدا نیرا خاندان سمیت 70 کی دہائی میں لندن جا کر بسی تھی۔ وہیں اس کی پڑھائی ہوئی ، وہیں ان کی گجراتی نژاد صنعت کار جگن راڈیا سے شادی ہوئی۔ شادی ناکام رہنے اور طلاق کے بعد وہ90 کی دہائی میں بھارت آگئیں۔ یہاں انہوں نے پہلی ملازمت سہارا ایئر لائنس میں کی۔ کچھ وقت بعد وہ سنگاپور کے کے۔ایل۔ایم اور یو کے ایئرلائنس کی نمائندہ بن گئیں۔اسی کے ساتھ نیرا راڈیا کی اقتدار کے گلیاروں میں پکڑ بنتی چلی گئی۔ 2001 ء میں نیرا نے پی آر دھرم ویشنوی کمیونی کیشن نام کی کمپنی بنائی اور جلد ہی ٹاٹا کی سبھی کمپنیوں کا کام انہیں مل گیا۔ اس سے ان کی حیثیت بھی بڑھ گئی اور لیڈروں، افسر شاہی تک ان کی پکڑ بن گئی۔2008 میں انہیں جانی مانی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ مکیش امبانی کی کمپنیوں کا کام بھی ملنے لگا۔ 2008ء میں نیرا راڈیا کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک شکایت ملنے پر محکمہ انکم ٹیکس نے ان کے ٹیلی فون کر سرویلنس میں ڈال دیا۔ بات چیت میں ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ اور سابق وزیر مواصلات اے۔ راجہ کا ذکر آنے سے سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جانچ شروع کردی لیکن ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے سے سیدھے وابستگی نہ ہونے کے سبب راڈیا کو کلین چٹ مل گئی۔ بات چیت افشاں ہونے پر کئی نام سامنے آئے جن میں رتن ٹاٹا، مکیش امبانی، اے ۔راجہ اور بڑی صحافی برکھا دت وغیرہ شامل ہیں۔ بات چیت افشاں ہونے پر رتن ٹاٹا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر اسے روکنے کی مانگ کی۔ وہیں ایک این جی اونے ٹیپ میں درج بات چیت میں مجرمانہ سازش والے حصوں پر کارروائی کے لئے مطالبہ بھی کیا۔ اس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو پوری بات چیت کی تفصیل پیش کرنے کوکہا۔ سی بی آئی نے رپورٹ میں بات چیت کے دوران 14 معاملوں میں مجرمانہ پہلوکی توثیق کی۔ عدالت نے کہا صنعتی گھرانوں کے لئے رابطہ ذرائع کا کام کرنے والی نیرا راڈیا کی افسروں ،صنعتکاروں ، نیتاؤں کے ساتھ ریکارڈ کی گئی بات چیت پہلی نظر میں گہری سازش کا پتہ چلتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسکے ساتھ 6 اشو کی جانچ کے احکامات بھی دئے جو ذاتی مفاد کے لئے بدعنوانی کے طریقے اپنانے سے متعلق ہے۔ جسٹس جی ایس سنگھوی کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ابتدائی طور پر بات چیت میں سرکاری افسران اور پرائیویٹ صنعتکاروں کی ملی بھگت گہری سازش دکھائی پڑتی ہے اور نیرا راڈیا کی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ بااثر لوگ ذاتی فائدہ اٹھانے کیلئے بدعنوانی کے طریقے اپناتے ہیں۔ ٹیلی فون ٹیپوں کا تجزیہ سپریم کورٹ کے ذریعے مقرر کمیٹی نے کیا ہے۔ عدالت نے جانچ کا حکم دیتے وقت حالانکہ ان چھ معاملوں کاتذکرہ نہیں کیا جن کی جانچ سی بی آئی کرے گی لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا کہ سی بی آئی کوا ن میں مجرمانہ سازش کے حصے ملے تھے۔ بڑی عدالت نے کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد کہا تھا راڈیا کے لیڈروں اور صنعتی گھرانوں اور دوسرے اشخاص سے ہوئی بات چیت کی تفصیل سے قومی سلامتی سے وابستہ معاملوں کے بارے میں بھی اشارے ملتے ہیں۔ سی بی آئی کو دو ماہ کے درمیان جانچ پوری کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگلی سماعت16 دسمبر کو ہوگی۔ نیرا راڈیا کے فون کی 180 دن کی ریکارڈنگ حکومت کے پاس ہے۔ 9 سالوں میں نیرا راڈیا نے 300 کروڑ روپے کی اسٹیٹ یوں ہی نہیں کھڑی کرلی؟ امید کی جاتی ہے کہ سی بی آئی سب معاملوں کی باریکی سے جانچ کرے گی اور ان سبھی کے رول کو بے نقاب کرے گی جو اس کانڈ سے جڑے ہیں جن میں کئی بڑے میڈیا والے بھی شامل ہیں۔
(انل نریندر)ایک وقت تھا جب کارپوریٹ دنیا میں لابسٹ نیرا راڈیا کی طوطی بولا کرتی تھی۔ پنجابی نژاد ہندوستانی شوہر کے یہاں 1959 ء میں نیروبی کینیا میں پیدا نیرا خاندان سمیت 70 کی دہائی میں لندن جا کر بسی تھی۔ وہیں اس کی پڑھائی ہوئی ، وہیں ان کی گجراتی نژاد صنعت کار جگن راڈیا سے شادی ہوئی۔ شادی ناکام رہنے اور طلاق کے بعد وہ90 کی دہائی میں بھارت آگئیں۔ یہاں انہوں نے پہلی ملازمت سہارا ایئر لائنس میں کی۔ کچھ وقت بعد وہ سنگاپور کے کے۔ایل۔ایم اور یو کے ایئرلائنس کی نمائندہ بن گئیں۔اسی کے ساتھ نیرا راڈیا کی اقتدار کے گلیاروں میں پکڑ بنتی چلی گئی۔ 2001 ء میں نیرا نے پی آر دھرم ویشنوی کمیونی کیشن نام کی کمپنی بنائی اور جلد ہی ٹاٹا کی سبھی کمپنیوں کا کام انہیں مل گیا۔ اس سے ان کی حیثیت بھی بڑھ گئی اور لیڈروں، افسر شاہی تک ان کی پکڑ بن گئی۔2008 میں انہیں جانی مانی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ مکیش امبانی کی کمپنیوں کا کام بھی ملنے لگا۔ 2008ء میں نیرا راڈیا کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک شکایت ملنے پر محکمہ انکم ٹیکس نے ان کے ٹیلی فون کر سرویلنس میں ڈال دیا۔ بات چیت میں ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ اور سابق وزیر مواصلات اے۔ راجہ کا ذکر آنے سے سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے جانچ شروع کردی لیکن ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے سے سیدھے وابستگی نہ ہونے کے سبب راڈیا کو کلین چٹ مل گئی۔ بات چیت افشاں ہونے پر کئی نام سامنے آئے جن میں رتن ٹاٹا، مکیش امبانی، اے ۔راجہ اور بڑی صحافی برکھا دت وغیرہ شامل ہیں۔ بات چیت افشاں ہونے پر رتن ٹاٹا نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر اسے روکنے کی مانگ کی۔ وہیں ایک این جی اونے ٹیپ میں درج بات چیت میں مجرمانہ سازش والے حصوں پر کارروائی کے لئے مطالبہ بھی کیا۔ اس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو پوری بات چیت کی تفصیل پیش کرنے کوکہا۔ سی بی آئی نے رپورٹ میں بات چیت کے دوران 14 معاملوں میں مجرمانہ پہلوکی توثیق کی۔ عدالت نے کہا صنعتی گھرانوں کے لئے رابطہ ذرائع کا کام کرنے والی نیرا راڈیا کی افسروں ،صنعتکاروں ، نیتاؤں کے ساتھ ریکارڈ کی گئی بات چیت پہلی نظر میں گہری سازش کا پتہ چلتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسکے ساتھ 6 اشو کی جانچ کے احکامات بھی دئے جو ذاتی مفاد کے لئے بدعنوانی کے طریقے اپنانے سے متعلق ہے۔ جسٹس جی ایس سنگھوی کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ابتدائی طور پر بات چیت میں سرکاری افسران اور پرائیویٹ صنعتکاروں کی ملی بھگت گہری سازش دکھائی پڑتی ہے اور نیرا راڈیا کی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ بااثر لوگ ذاتی فائدہ اٹھانے کیلئے بدعنوانی کے طریقے اپناتے ہیں۔ ٹیلی فون ٹیپوں کا تجزیہ سپریم کورٹ کے ذریعے مقرر کمیٹی نے کیا ہے۔ عدالت نے جانچ کا حکم دیتے وقت حالانکہ ان چھ معاملوں کاتذکرہ نہیں کیا جن کی جانچ سی بی آئی کرے گی لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا کہ سی بی آئی کوا ن میں مجرمانہ سازش کے حصے ملے تھے۔ بڑی عدالت نے کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد کہا تھا راڈیا کے لیڈروں اور صنعتی گھرانوں اور دوسرے اشخاص سے ہوئی بات چیت کی تفصیل سے قومی سلامتی سے وابستہ معاملوں کے بارے میں بھی اشارے ملتے ہیں۔ سی بی آئی کو دو ماہ کے درمیان جانچ پوری کرنے کو کہا گیا ہے۔ اگلی سماعت16 دسمبر کو ہوگی۔ نیرا راڈیا کے فون کی 180 دن کی ریکارڈنگ حکومت کے پاس ہے۔ 9 سالوں میں نیرا راڈیا نے 300 کروڑ روپے کی اسٹیٹ یوں ہی نہیں کھڑی کرلی؟ امید کی جاتی ہے کہ سی بی آئی سب معاملوں کی باریکی سے جانچ کرے گی اور ان سبھی کے رول کو بے نقاب کرے گی جو اس کانڈ سے جڑے ہیں جن میں کئی بڑے میڈیا والے بھی شامل ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟