آخر کب تک ہم یوں ہی مرتے رہیں گے؟

جموں کے سرحدی علاقوں میں پاکستان نے جنگ والے حالات بنا دئے ہیں اور اب یہ حالت بن گئی ہے کہ مسلسل گولہ باری کی وجہ سے لوگ جان بچانے کے لئے گھر چھوڑ کربھاگ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ کا بھی صبر کا باندھ ٹوٹ گیا ہے انہوں نے سخت تیور اپناتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تو ہمیں اسے جواب دینا چاہئے۔ اگر پاکستان سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری رکھتا ہے تو مرکزی سرکار کو دوسرے متبادل تلاشنے ہوں گے۔عمر کا کہنا تھا کہ آج گاؤں سنسان ہورہے ہیں ۔ لوگ اپنے کھیت اور گھر چھوڑ رہے ہیں۔ بچوں نے اسکول جانا بند کردیا ہے۔ وجہ یہ ہے پاکستان جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔ عمر نے پاکستانی رینجرز اور فوجیوں کی گولہ باری کی زد میں دیہاتیوں کی دیکھ بھال کی خاص ذمہ داری تارا چند (نائب وزیر اعلی) کو دی ہے۔ پاکستان نے جنگبندی کی خلاف ورزی کا آٹھ سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ 140 بار جنگبندی کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس سال گذشتہ آٹھ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔14 اگست کو پونچھ میں کنٹرول لائن اور جموں سانبا اور کٹھوا میں روز فائرننگ ہورہی ہے۔ عمر عبداللہ نے سرحد پر بگڑے حالات کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو سیدھا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا گذشتہ دنوں نیویارک میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور نواز شریف کی ملاقات کے بعد ہی گولہ باری تیز ہوئی ہے۔ اس کے لئے نواز شریف کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو پھر حالات پر ان کا کوئی بس نہیں چل پارہا ہے۔ وزیر اعلی نے کہا نیویارک میں ملاقات میں دونوں وزرائے اعظم نے طے کیاتھا کہ فوجی تنازعوں کو دور کرنے کے لئے ڈی جی ایم او سطح پر معاملے پر غور ہو۔ اس متبادل کو اپنایا جانا چاہئے۔ اگر اس سے حل نہیں نکلتا تو دوسرے متبادل اپنانے کے لئے مرکزی حکومت تیار رہے۔ شہری علاقوں پر مسلسل فائرننگ سے ایسے حالات بن گئے ہیں جس میں سرداری ہی مانو دشمنوں کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ پاکستان سے بات چیت کی رٹ لگانے والے عمر عبداللہ اب دوسرے متبادل کی بات کررہے ہیں۔اسی سے حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب نواز شریف نے اقتدار سنبھالا تھا تب انہوں نے بھارت کے ساتھ بھائی چارے کی بات کہی تھی لیکن ہم نے اس کالم میں آگاہ کیا تھا کہ نواز شریف پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اٹل بہاری واجپئی لاہور گئے تھے تب بھی انہی میاں نواز شریف نے دوستی کی باتیں کہی تھیں لیکن ان کے قول اور فعل میں بہت فرق ہے۔ دراصل پاکستانی فوج و دیگر جہادی طاقتوں کو معلوم ہے کہ امریکہ میں 2014ء میں افغانستان چھوڑنا ہے اور وہ پاکستان کی مدد کے بغیر ایسا شاید نہ کرسکے۔ تبھی بار بار پاکستان امریکہ سے کشمیرمعاملے میں ثالثی کی بات کرتاہے۔ ادھر بھارت میں کیونکہ عام چناؤ قریب ہیں اور یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ منمو ہن سنگھ سرکار ہاتھ میں چوڑیاں پہنے ہوئے ہے اسی لئے وہ مسلسل سرحد پر دباؤ بنا رہا ہے۔ خود نواز شریف کی حکومت کے ابھی پاکستان میں پاؤں جمے نہیں کہ وہ کشمیرکے اشو کو ہر حالات میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی یوپی اے سرکار نے ہمارے بہادر جوانوں کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ پاکستان کو معقول جواب دینے کی انہیں اجازت نہیں ہے۔ میں ایک سینئر فوجی افسر سے بات کررہا تھا تو انہوں نے کہا کہ یقین کریں کہ ہندوستانی فوج ہر لحاظ سے اہل ہے اور ہم پاکستان کو معقول جواب دے سکتے ہیں لیکن ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نہ تو لائن آف کنٹرول پار کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے علاقے میں گھس کر ان کے فوجی کیمپوں اور جہادیوں کیمپوں پر حملہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں یہ لڑائی اپنی سرزمین پر ہی لڑنی پڑ رہی ہے۔ اسی کمزور اور بزدل سرکاری پالیسی کا پاکستان فائدہ اٹھاتا ہے۔ جب بھی ہم کوئی ٹھوس جوابی کارروائی کرنے کی بات کرتے ہیں تو پاکستان ایٹمی بلیک میلنگ پر اتر آتا ہے لیکن اس دھمکی کے سبب ہم کب تک یوں ہی مرتے رہیں گے۔ سرحد کے حالات صاف اشارہ دے رہے ہیں کہ ہمارا پڑوسی کوئی خطرناک فیصلہ کرچکا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے یہ تمام سازشیں چل رہی ہیں۔ سانبہ کے آتنکی حملے کی ساری پلاننگ 20 ستمبر کو لاہور کی سلوا مسجد میں رچی گئی جس میں پاکستان کا ایک برگیڈیئر سمیت چار سینئر فوجی شامل تھے۔ جموں میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں پاکستانی فوج براہ راست ذمہ دار ہے۔ پاک فوج نواز شریف و جہادی مل کر کام کررہے ہیں اور اسکا مقابلہ بھارت نہیں کرپا رہا ہے۔ ویسے اس سرکار سے ہمیں کوئی امیدنہیں۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ہم دوستی کی باتیں کرتے رہیں گے اور وہ ہمیں مارتے رہیں گے۔ جب مرکز میں اقتدار تبدیلی ہوتی ہے تو شاید صحیح متبادل سامنے آئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟