برے پھنسے آسارام :اب تو انہیں منتری اور معجزہ ہی بچا سکتا ہے!

نابالغ لڑکی سے آبروریزی کے معاملے میں پیر کو جودھپور کی نچلی عدالت نے آسا رام کو14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا۔ عدالت میں پولیس کی جانب سے ریمانڈ کی میعاد بڑھانے کی مانگ نہیں کی گئی تھی۔ عدالت سے سیدھے آسارام کو جودھپور سینٹرل جیل لے جایاگیا جہاں پہلے سے تیار بیرک نمبر1 میں انہیں رکھا گیا ہے۔ یہ وہی بیرک ہے جس میں اگست2007ء میں کالے ہرن کے شکار کے معاملے میں بالی وڈ اداکار سلمان خاں کو رکھا گیا تھا۔ نابالغ لڑکی سے جنسی بدفعلی کے الزامات سے گھرے آسام رام کو وقت نے ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں پولیس قانون کی دفعات اور حوالات اور سوالوں کی جھڑی ان کا پیچھا کررہی ہے۔ چمچماتی گاڑیوں میں سواری کرنے اور شاندار آشرموں میں بسیرا کرنے والے آسا رام نے ایتوار کی رات پولیس کی حفاظت میں گزاری۔ اس رات کے تجربے آسارام تمام عمر نہیں بھول پائیں گے۔ پولیس نے آسا رام سے سخت پوچھ تاچھ کی۔ پولیس نے پوچھا آپ نے کیا کیا ہے؟ آسا رام۔ کچھ نہیں۔ پولیس: لڑکی کیوں الزام لگا رہی ہے؟ آسارام: پتہ نہیں، کسی کی سازش ہوگی۔ پولیس: اس کے والد آپ کے پرانے بھکت رہے ہیں وہ ایسا کیوں کریں گے؟ آسارام: چپ رہے، پولیس: لڑکی کو منائی کیوں بلایا گیا تھا؟ آسارام: میں نے نہیں بلایا تھا وہ خودآئی تھی۔ پولیس: اگر وہ خود آئی تھی تو آپ کی کٹیا کیسے پہنچ گئی؟ آسارام: چپ رہے۔ سارے ثبوت آسارام کے خلاف جارہے ہیں کٹیا سے ملے فورنسک ثبوت بھی آسارام کے خلاف ہیں۔ پولیس آسارام کو کٹیا پر نشاندہی کے لئے لے گئی تھی اور متاثرہ کے بیانوں کی بنیاد پر ان سے سوال کئے تھے جو متاثرہ کے بیانوں سے میل کھاتے ہیں۔ پولیس کو متاثرہ لڑکی نے کٹیا میں آسا رام کی و خودبیٹھنے کی جو جگہ اور دیگر حالات بتائے تھے وہی جگہ آسارام نے بھی بتائی۔ بدفعلی کے بڑھتے واقعات کے لئے بنایا گیا سخت قانون آسارام کی مصیبت بن سکتا ہے۔ اس معاملے میں اگر الزام ثابت ہوگئے تھے تو انہیں کم سے کم 10 سال سخت جیل کی سزا ہوگی۔ ترمیم شدہ قانون میں متاثرہ کو فوری انصاف دلانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ نئے قانون میں بدفعلی کی تشریح کو بھی وسیع کیا گیا ہے۔ اب کسی بھی طرح کا جنسی استحصال بدفعلی مانا جائے گا۔ یہ کہہ کر بچا نہیں جاسکتا کے حقیقت میں جنسی رابطہ نہیں ہوا اس لئے جرائم بدفعلی کی زمرے میں نہیںآتا۔ ویسے آسارام کی گرفتاری کا پورا سلسلہ کم دلچسپ نہیں ہے۔ اس کہانی میں سیاسی داؤ پیچ بھی ہیں پولیسا چالاکی بھی۔ آسارام پر سرکار کے پہلے نرم گرم رخ کے پیچھے سیاسی حساب کتاب ہے۔ ریاستی حکومت آسارام پر کارروائی سے اس لئے کترارہی تھی کیونکہ اسے دہلی سے گرین سگنل نہیں مل رہا تھا۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے ،کانگریس کے ریاستی انچارج گورداس کامت کے ساتھ وزیر اعلی اشوک گہلوت کی بات چیت کے بعد ہی آسارام کی گرفتاری کا راستہ صاف ہوا تھا۔ آسا رام نے اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے لئے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی پر پھنسانے کا الزام لگایا۔ کانگریس ناراض تھی۔28 اگست کو گہلوت دہلی گئے۔ وہاں مرکزی وزیر داخل سشیل کمار شندے، گورداس کامت اور دگوجے سنگھ کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔ 30 اگست کو فوراً بعد آسا رام کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مدھیہ پردیش سے گرفتاری کے پیچھے بھی سیاسی حساب کتاب تھا کیونکہ وہاں بھاجپا کی سرکار ہے اس لئے گرفتاری پر سیاست نہ ہو اس لئے 31 اگست کی دیر رات آسارام گرفتار ہوئے۔ آسارام معاملے کو لیکر یوگ گورو بابا رام دیو نے کہا کہ کچھ سنتوں سے اگر غلطی ہوئی ہے تو اس کے لئے پورے سنت سماج کو قصوروار نہیں مانا جاسکتا۔ یہ ضروری ہے کہ سادھو سنتوں کو عورتوں اور لڑکیوں سے اکیلے نہیں ملنا چاہئے۔ رام دیو نے کہا کہ سنتوں نے دیش کوکئی بار راہ دکھائی ہے۔ آج کے دور میں کچھ سنتوں پر ضرور آنچ آئی ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کے پورا سنت سماج خراب ہوگیا ہے۔ کئی سادھو سنت روحانیت کے ساتھ ساتھ مختلف پہلوؤں پر بھی کام کررہے ہیں۔ موجودہ وقت میں سنتوں کو اپنی مریاداؤں کو پار نہیں کرنا چاہئے۔ انہیں دھیان میں رکھنا ہوگا کے عورتوں اور لڑکیوں سے جب بھی وہ ملیں تب کئی لوگ ان کے ساتھ ہوں۔ عورتوں کے ساتھ مردوں کو بھی بات چیت کے لئے بٹھایا جائے۔ بہرحال لمبے ہو گئے آسارام ۔ اب تو انہیں منتری اور معجزے کا ہی سہارا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!