یہ سزا نہیں انعام ہے، ایسے معاملوں میں عمر کا نہ ملے فائدہ!


23 سالہ پیرامیڈیکل طالبہ کے ساتھ 16 دسمبر کو وسنت وہار میں چلتی بس میں اجتماعی آبروریزی کے معاملے میں پہلا فیصلہ آگیا ہے لیکن اس فیصلے سے پورا دیش مایوس اور غصے میں ہے۔ یہ سزا نہیں انعام ہے۔ جس بس میں نربھیا پر سب سے زیادہ ظلم ڈھائے گئے اور جس کی وجہ سے اس کی جان گئی اس کے قصوروار کو محض 3 سال کی سزا ملی۔ اس میں سے بھی وہ دن کاٹ دئے جائیں گے جو وہ اصلاح گھر میں گزار چکا ہے یعنی اب محض 2 سال 8 مہینے ہی قید میں رہے گا باقی کی سزا بھی اسی جگہ پر کاٹے گا۔ جیونائل جسٹس بورڈ میں نابالغ ملزم کو سنیچر کو یہ فیصلہ سنایا۔ اس ایکٹ کے تحت اس سے زیادہ وقت اصلاح گھر میں نہیں بھیجا جاسکتا لیکن متاثرہ کے رشتے دار مطمئن نہیں ہیں۔ فیصلہ سننے کے بعد متاثرہ کی ماں نے کہا کہ یہ ہی کرنا تھا تو اتنا انتظار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہمیں بیوقوف بنایا گیا ہے۔ اس سے سندیش گیا ہے کہ نابالغ کتنا سنگین جرم کرلے وہ چھوٹ جائے گا۔ جوینائل بورڈ نے نابالغ کو آبروریزی اور قتل کا قصوروار قراردیا ہے۔ لڑکی کے دوست سے لوٹ مار اور قتل کی کوشش کے الزام سے بری کردیا ہے۔
متاثرہ کے والد کا تبصرہ تھا میں تو 29 دسمبر کو تب ہی ٹوٹ گیا تھا جب میں نے اپنی بیٹی کو کھو دیا تھا ۔پھر بھی میں نے ہمت دکھائی اور جوینائل بورڈ کی کارروائی میں یہ سوچ کر شامل ہوا کے نابالغ کو پھانسی کی سزا ملے گی۔ اب لگتا ہے یہاں لڑکی پیدا ہونا ہی ایک جرم ہے۔ ریاست یا سرکاری یا متاثرہ فریق کے فیصلے کو چنوتی بھی نہیں دے پائے گا کیونکہ ملزم جوینائل ایکٹ کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا ملی ہے۔ ہاں ملزم چاہے تو فیصلے کو چیلنج کرسکتا ہے۔ اس گھناؤنے جرم میں کل6 ملزم تھے۔ ایک کی موت ہوچکی ہے اب 4 لوگوں کافیصلہ آنا باقی ہے۔ امیدکی جانی چاہئے انہیں سخت سے سخت سزا ملے۔ سب سے تکلیف دے پہلو یہ ہے کہ 16 دسمبر کے اس واقعہ میں نابالغ لڑکے نے ہی حیوانیت کا ننگا ناچ کیا تھا۔ چلتی بس میں آبروریزی کے دوران اس نے درندگی کی ساری حدیں پار کردی تھیں۔ نابالغ لڑکے پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے یہ لڑکی کے اعضاء کو نقصان پہنچایا تھا جو اس کی موت کا سبب بنی۔ اس معاملے میں یہ بات موضوع بحث بن گئی ہے کہ ایسے سنگین و گھناؤنی حرکت کرنے والے لڑکے کو کیا صرف نابالغ کے نام پر بچہ مان لیا جائے اور اصلاح گھر میں بھیج دیا جائے یا قانون میں پھر سے ترمیم پر غور کیا جائے؟ لیکن موجودہ قانون کے تحت جوینائل جسٹس بورڈ کے سامنے اس کا معاملہ چلایا گیا۔ اس کے پیدائشی سرٹیفکیٹ کی بنیادپر واردات کے وقت اس کی عمر17 سال6 مہینے پائی گئی تھی۔ 
اس معاملے میں جے۔جے بورڈ نے مارچ کے مہینے میں اپنی جانچ شروع کی اور5 جولائی کو جانچ کی کارروائی پوری کرلی گئی۔ پولیس کے مطابق واردات کے وقت نابالغ کنڈیکٹر کی سیٹ پر بیٹھا تھااور مکیش بس چلا رہا تھا۔ نابالغ ہی آر کے پورم سیکٹر 4 کے پاس آواز لگا کر متاثرہ کو بس میں بٹھایا تھا اور اس کے بعد اس سے اس کا موبائل اور پیسے لوٹنے کے بعد اس کے فرینڈ کو بس سے دھکا دے دیا تھا۔ اس کے بعد جب بس میں منریکا بس اسٹینڈ پر پہنچی تو دوارکا جانے کی بات کہتے ہوئے متاثرہ اور اس کے دوست کو پھر بٹھا لیا۔ جب ان لوگوں نے اترنا چاہا تو اسی نابالغ نے بس کا دروازہ بند کردیا اور پھر سبھی ملزمان نے حیوانیت کی وہ داستان لکھی جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ اس فیصلے سے صفدرجنگ میں متاثرہ کے علاج میں شامل ڈاکٹروں کی ٹیم بھی ناخوش ہے اور دکھی ہے۔ لڑکی کے علاج میں شامل ٹیم کے ایک سینئر ڈاکٹر نے کہا کہ لڑکی کے علاج کے دوران بھی تڑپ اٹھے تھے اور محسوس کررہے تھے کہ وہ کسی طرح سے ٹھیک ہوجائے۔ لڑکی کے ساتھ ہوئی گھناؤنی حرکت کی سزا سے کوئی صرف عمر کو ڈھال بنا کر بچ رہا ہے یہ ہم سب کے لئے شرم کی بات ہے۔ اس فیصلے پر دوبارہ نظرثانی ہونی چاہئے۔ جانی مانی نفسیاتی ماہر ارونابوٹا کا خیال ہے نابالغ اگر سنگین جرم کرتا ہے تو جرم کی بنیاد پر ہی سزا ملنی چاہئے۔
نابالغ ایسی گھناؤنی حرکتیں نہیں کرتے وہ چھوٹی موٹی شیطانیاں کرتے ہیں۔جب یہ نابالغ اتنا بڑا کرائم کرسکتا ہے جو بڑی عمر کے آدمی بھی نہیں کرتے یہ جوینائل کیسے؟ پھر سارا کچھ ایک اسکول سرٹیفکیٹ کی بنیادپر ہی طے ہوا ہے۔ کیوں نہیں اس کا ٹیسٹ کراکر صحیح عمر تعین کی جاتی۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس جوینائل ایکٹ میں ترمیم کرکے ایک مضبوط تاریخ بنانے میں لگ گئے۔ وہ دہلی کا شیطان تھا لیکن نابالغ ہونا اس کوبچانے میں ڈھال بن گیا۔ 
قانون کی ایڈلٹ دفعات نے کمسن ہونے پر اسے ایسی سزا سنائی کے خود بھی سزا شرمسار ہوگئی۔ یہیں ہم موقعہ گنوا بیٹھے۔ ساری تحقیقوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی بچہ ذہنی طور پر کرمنل ذہنیت کا ہے تو اس کو سدھارنے کی گنجائش نہ کے برابر ہوتی ہے۔ ایسے نابالغوں کی ہی کونسلنگ کیوں نہ کی جائے۔ 
اصلاح گھر سے نکلنے کے بعد بھی وہ جرم کریں گے۔ اجتماعی آبروریزی جیسی سنگین حرکت کرنے والے نابالغ ملزم کی دماغی جانچ ہونی چاہئے تھی۔ سماجی کارکن سوامی اوتار بابا جوینائل بورڈ کے ذریعے فیصلہ سنانے کے موقعے پر موجود تھے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کے نابالغ کے ذریعے جو بربریت آمیز حرکت کے لئے سنائی گئی سزا بہت کم ہے۔ اس سے سماج میں ایسے لوگوں کے خلاف اچھا پیغام نہیں جائے گا۔ اس سے بچوں اور عورتوں کے تئیں ہونے والے جرائم میں کمی نہیں آئے گی یہ ضروری ہے کہ ایسے سنگین معاملوں میں نابالغ کے لئے قانون میں تبدیلی لائی جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!