جب قانون کے رکشک ہی بھکشک بن جائیں تو جنتا کیا کرے؟

گوتم بدھ نگر میں گینگ ریپ کا بھوت پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ جمعہ کی رات سیکٹر 105 میں دہلی کی لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کیس میں پی اے سی کے دو جوانوں نے دبش دینے کے بہانے گھر میں گھس کر اپنے تین دوستوں کے ساتھ لڑکی سے بدفعلی کی ۔ ملزمان نے مار پیٹ کر لڑکی سے نقدی اور کریڈٹ کارڈ بھی لوٹ لئے۔ جب رکشک ہی بھکشک بن جائیں تو جنتا کیا کرے؟ پی اے سی کے دونوں جوان نیلی بتی لگی سرکاری جیپسی میں آئے تھے۔ دونوں گریٹر نوئیڈا کی 49 ویں سینا واہنی کے ڈپٹی کمانڈنٹ کے بندوقچی اور ڈرائیور ہیں۔ کوتوالی سیکٹر29 کے انچارج انسپکٹر دھرمیندر چوہان کے مطابق گریٹر نوئیڈا کے باشندے پون گوئل جمعہ کو سیکٹر105 میں واقع اپنے رشتے دار کے فلیٹ میں آئے ہوئے تھے ، ان کے رشتے دار باہر گئے ہوئے ہیں۔ دیر شام ان سے ملنے دہلی کی ایک عورت آئی تبھی سالار پور کے باشندے ارون نے اپنے دوست جیتو اور بنٹی کو فلیٹ میں مہلا کو اکیلے آنے کی جانکاری دے دی۔ بنٹی نے پی اے سی کے ڈپٹی کمانڈینٹ ستپال سنگھ کے بندوقچی بنسی رام و ڈرائیور سبھاش چودھری کو بلا لیا۔ دونوں سپاہی نیلی بتی لگی سرکاری جیپسی میں آئے اور تلاشی کے نام پر فلیٹ میں داخل ہوگئے۔ سپاہیوں نے پون گوئل پر قابو پالیا اور اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر لڑکی کے ساتھ بدفعلی کی۔ ہزاروں روپے نقدی اور ڈیبٹ کارڈ لوٹ کر بھاگ گئے۔ عورت کی شکایت پر پولیس نے اس میں شامل چاروں ملزمان سبھاش چودھری، بنسی رام، بنٹی و ارون کو گرفتار کرلیا ہے۔ نوئیڈا سٹی میں پچھلے کچھ دنوں سے آبروریزی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
26 ستمبر 2012ء کو کھارچا میں 10 ویں کلاس کی طالبہ سے بدفعلی ہوئی۔ 5 جنوری 2013 کو نوئیڈا سیکٹر58 میں بدفعلی کے بعد لڑکی کو مار ڈالا گیا۔ اپریل 2013ء کو برولا کی طالبہ سے ہسپتال کے منیجر نے بدفعلی کی۔19 مئی2013ء کو بنسرک علاقے میں عورت سے کار میں اجتماعی آبروریزی کی گئی۔8 جون کو اسی علاقے میں کمپیوٹر سینٹر میں طالبہ سے ٹیچر نے یہ ہی کام کیا۔20 جولائی 2013ء کو سیکٹر 20 علاقے میں لڑکی سے اس کے پڑوسی نے برا کام کیا اور15 اگست اسی سال بادل پور علاقے میں طالبہ سے آبروریزی کی گئی۔ اترپردیش میں عورتوں پر بڑھتے جرائم سے قومی انسانی حقوق کمیشن بھی فکر مند ہے۔
ریاست میں عورتوں کے ساتھ آبروریزی اور پھر انہیں زندہ جلانے جیسے گھناؤنے واقعات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ کمیشن نے اس کو سنجیدگی سے لیا ہے تکلیف دہ پہلو یہ ہے اترپردیش سرکار اس کرائم کے سیلاب پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ کوئی کارگر قدم نہیں اٹھا پارہی ہے پچھلے دنوںیوپی کے وزیر اعلی اکھلیش یادو کے ضلع اٹاوہ میں ایک عورت کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ہوئی اور اسے زندہ جلا دیا لیکن صرف مجسٹریٹ جانچ کا حکم دے کر حکومت نے اپنے فرض کی خانہ پوری کردی۔ اترپردیش میں عورتوں پر بڑھتے جرائم کے اعدادو شمار کی تصویر بیحد کالی ہے۔ قومی جرائم ریسرچ بیورو کے اعدادو شمار کے مطابق2009 ء میں دیش بھر میں جتنے جرائم عورتوں کے ساتھ ہوئے تھے ان میں سے11 فیصد جرائم صرف یوپی میں ہوئے ہیں۔ معاملہ تب اور سنگین ہوجاتا ہے جب قانون کے محافظ ہی بھیڑئے بن جائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!