شام پر منڈراتے جنگ کے بادل اس کا مضر اثر پوری دنیا پر پڑے گا!

ایک بار پھر مشرقی وسطیٰ ایشیا میں جنگ کے بادل منڈرانے لگے ہیں وجہ ہے شام میں خانہ جنگی۔ خبر آئی ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھی ملکوں نے مبینہ کیمیائی حملے کو لیکر شام پر فوجی کارروائی کرنے کے لئے زمین تیار کرلی ہے۔ تازہ حالات پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور امریکہ کے صدر براک اوبامہ کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ امریکی نائب صدر جوئے بیڈن نے یہ کہہ کر شام کے خلاف حملے کیلئے زمین تیار کردی ہے پچھلے ہفتے ہوئے مبینہ کیمیائی حملے کے پیچھے صرف شام کے صدر بشارالاسد حکومت کی فوجوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ برطانیہ نے بھی امریکی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مبینہ کیمیائی حملے کیلئے اسد انتظامیہ کی سکیورٹی فورسز ذمہ دار ہیں۔ اس وقت شام پر حملے کو لیکر دنیا دو خیموں میں بٹی ہوئی ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، اسرائیل ،ترکی سمیت کئی دیش سرکار کو سبق سکھانے کے لئے فوجی کارروائی کے حق میں ہیں۔ جبکہ روس ،چین ، ایران اور لبنان نے ممکنہ فوجی کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ خیال کیا جارہا ہے بھارت پرامن ڈھنگ سے اس بحران کو سلجھانے کے حق میں ہے۔ اقوام متحدہ کی ٹیم نے بدھوار کو کیمیائی گیس حملے کے ثبوت اکٹھا کرنے کے لئے دوسری بار جانچ کی۔ٹیم پر پیر کو حملے کے بعد منگلوار کو جانچ ملتوی کردی گئی لیکن امریکہ اور اس کے ساتھی مغربی ممالک کے تیوروں کا اسی سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کے نائب صدر جوئے بیڈن نے کہا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شام پر کیمیائی حملے کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ امریکہ پوری طرح سے اس سے باآور ہے کہ21 اگست کو خطرناک حملے کے لئے اسد کی فوج کی ذمہ دار گردانی جاسکتی ہے۔ صدر براک اوبامہ اور میرا خیال ہے کہ جن لوگوں نے بے قصور لوگوں کی جان لی انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔ اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شام کے نیوکلیائی کارخانوں پر میزائلوں کی بارش کبھی بھی شروع ہوسکتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو دنیا میں امن کو بڑے خطرے کے دور کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہندوستان کے لئے یہ جنگ بے موقعہ مانی جاسکتی ہے جس کا تباہ کن اثر نہ صرف ہماری لڑکھڑاتی معیشت اور حکومت کو سامنا کرنا پڑسکتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی خطرناک بن سکتی ہے۔
امریکی کارروائی کا سیدھا اثر کچے تیلوں کی قیمت پر پڑے گا جو حملے کی آہٹ ملنے کے ساتھ ہی آسمان چھو سکتی ہے لیکن پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت جو اس سال کے ابتدا سے ہی نیچے جارہی تھی پچھلے تین مہینوں سے لگتا ہے اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مصر میں منڈراتے بحران اور کشیدگی اور لیبیا میں بے چینی اور شام میں حملے کے اندیشے سے پیٹرول کی قیمتوں میںآگ لگ سکتی ہے۔ بھارت جو 80 فیصد پیٹرولیم مصنوعات باہر سے منگاتا ہے اس کے آگے سیدھے پریشانیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کے خطرناک اثرات ہوسکتے ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکیمون نے کہاعالمی امن کے لئے شام سب سے بڑی چنوتی ہے۔بلا شبہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو بنائے رکھنے کے لئے شام میں امن کے لئے سکیورٹی کونسل کو اتحاد دکھاناچاہئے۔ شام کی فوج و اقتدار کی چابی اقلیتی شیعہ فرقے کے ہاتھ میں ہے اور اس کی وجہ ارب دیشوں کی اکثریت بھی موجودہ اقتدار کے خلاف کارروائی کے حق میں ہے۔ صدر اسد کے خلاف ارب دیشوں کے سنی لڑاکے ان کی مخالفت کرنے سیدھے شام پہنچ رہے ہیں۔ اگر لڑائی بڑھتی ہے تو اس کا مضراثر کئی ملکوں پر پڑ سکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟