پیچھے نہیں ہٹیں گے چاہے مرکز سارے آئی ایس افسر بلالے،سپا

تلنگانہ ریاست بنانے کے بعد دیش کے مختلف حصوں میں الگ الگ ریاست بنانے کا جہاں سیلاب سا آگیا ہے۔تلنگانہ کا مسئلہ مرکزی حکومت کے لئے ایسا گلے کی ہڈی بنا کہ نہ تو نگلتے بن رہا ہے نہ اگلتے۔ وہیں اترپردیش کی سماج وادی پارٹی نے تو ساری حدیں پار کردی ہیں اور یوپی تو ایسا برتاؤ کررہا ہے جیسے کہ وہ ایک الگ دیش ہو۔ یوپی کا اقتدار چلا رہی سماجوادی پارٹی کی طرف سے پیر کے روز آئے بیان سے تو یہی لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کے دروازے پر پارٹی سکریٹری جنرل رام گوپال یادو نے مرکزی سرکار کو کھلی دھمکی دے دی ہے۔ رام گوپال یادو نے کہا معطل آئی ایس افسر درگا شکتی ناگپال کے معاملے میں مرکز مداخلت بند کرے۔ اگر مرکز کو اپنے آئی ایس افسروں کی اتنی فکر ہے تو انہیں واپس بلا لے، ہم ریاست کے افسروں کے سہارے یوپی کی سرکار چلا لیں گے۔ یہ پہلی بار جب کسی ریاست نے اس طرح کی دھمکی دی ہے۔ ویسے درگا شکتی معاملے میں مرکزی سرکار کو محاسبہ کرنے کا اختیار ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر مملکت اور ڈی او پی ٹی محکمے کے وزیر نارائن سوامی نے کہا کہ اگر درگاشکتی عرضی دیتی ہے تو اسکی معطلی کے معاملے پر غور ہوگا؟ دوسری طرف اپنی پارٹی اور اترپردیش کے وزیر اعلی اکھلیش یادو کے بچاؤ میں سپا ایم پی ڈمپل یادو نے کہا مہلا افسر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ گوتم بودھ نگر کی معطل ایس ڈی ایم درگا شکتی ناگپال کو لیکر مچے سیاسی ہنگامے کو بے وجہ مانتے ہوئے ڈمپل یادو نے کہا کہ درگا کو چارج شیٹ دے دی گئی ہے۔ اس کے جواب کے بعد پتہ چل پائے گا کہ اس کا کیا موقف ہے۔ اس کی بنیادپر آگے کی کارروائی ہوگی۔ مرکزی وزیرہوا بازی اجیت سنگھ نے درگا شکتی ناگپال کی معطلی پر کہا کہ اترپردیش میں یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔ فی الحال وہاں ساڑھے چار وزیر اعلی ہیں۔ چار دیگر لوگ بھی سرکار چلا رہے ہیں۔ آدھے حصے کے طور پر اکھلیش یادو وزیر اعلی ہیں،ایسے میں سے ساڑھے چار وزیر اعلی میں سے کونسا اصل سرکار چلا رہا ہے یہ ریاست کے افسر شاہوں کو بھی نہیں پتہ۔ اترپردیش کے پچھلے اسمبلی انتخابات کے دوران اکھلیش یادو نے بار بار دوہرایا تھا اگر اس بار سماجوادی پارٹی کو اقتدار میںآنے کا موقعہ ملاتو وہ پچھلی غلطیوں کو نہیں دوہرائے گی۔ لیکن نوجوان وزیر اعلی نے اپنے اس وعدے کے بارے میں بار بار مایوس کیا ہے۔ ان کی سرکار وہی غلطیاں کررہی ہے جو سپا کی پچھلی حکومتوں نے کی تھیں۔ لوگوں نے اکھلیش سے بہت امیدیں لگائی تھیں لیکن دبنگی اور ناجائز دھندوں میں لگے لوگوں کا راج پھر شروع ہوگیا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ اقتدار اعلی کی سرپرستی پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بھگتنا پڑتا ہے ایماندار اور وفادار افسروں کو۔ ایسا نہ ہوتا تو درگا شکتی ناگپال کو یوں بے عزت کرکے نہ نکالا جاتا۔ خود وزیر اعلی کہتے ہیں درگا شکتی کو اس لئے معطل کیا گیا کیونکہ ان کی ایک کارروائی سے فرقہ وارانہ بھائی چارے کا ماحول بگڑنے کا اندیشہ تھا۔ غور طلب ہے گوتم بودھ نگر کی ایس ڈی ایم رہتے ہوئے درگا شکتی نے ضلع کے بادل پور گاؤں میں سرکاری زمین پر کھڑی کی جارہی مسجد کی دیوار گروا دی تھی۔ اول تو اس پر بھی جھگڑا ہے کہ دیوار کس نے گروائی اور کیوں گروائی، یہ ایک منٹ کے لئے مان بھی لیا جائے کہ انہوں نے ایسا کیا تو کیا غلط کیا؟ کیا سپریم کورٹ نے صاف احکامات نہیں دئے کہ سرکاری زمین پر کسی نا جائز تعمیرات کو ہٹا دیا جائے ؟ درگا نے اپنے فرائض کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا قدم اٹھایا لیکن اس کا خمیازہ انہیں معطلی کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ ایک نوجوان ایماندارافسر کو ملی اس سزا نے ریاستی سرکار کو ہی کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ ضلع افسر نے بھی سرکار کو بھیجی اپنی رپورٹ میں درگا شکتی کو کلین چٹ دی ہے۔ پھر ممبر اسمبلی نریندر بھاٹی کی منظوری نے بھی وزیراعلی کی دلیل کی ہوا نکال دی ہے۔ بھاٹی نے دعوی کیا ہے انہوں نے سپا کی سینئر لیڈرشپ سے بات چیت کر معطلی کا راستہ ہموار کرایا تھا۔ درگا شکتی کی معطلی پر دیش بھر میں ناراضگی اور رد عمل سامنے آیا ہے۔ آئی ایس افسر فیڈریشن سے لیکر سول تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کی جانب سے بھی احتجاج کی آواز اٹھی ہے۔ سونیا گاندھی نے خود وزیر اعظم کو خط لکھ کر درگا کے ساتھ انصاف کو یقینی بنانے کی اپیل کی تھی۔ ان کے اس خط کے بعد مرکزی سرکار کو اترپردیش سرکار سے جواب طلب کرنا پڑا۔ لیکن سپا سرکار نے جواب میں کہا کہ آپ چاہو تو اپنے سارے آئی ایس افسر واپس بلا لو اور اب تک کے رویئے سے یہ نہیں لگتا کہ وہ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے والی ہے۔ الٹا سپا نے کانگریس کو چپ کرانے کے لئے رابرٹ واڈرا، اشوک کھیمکا معاملے کی یاد کرادی۔ مندر ۔ مسجد کے نام پر زمین پر ناجائز قبضے اور بڑھتی تعمیرات کے سلسلے کوروکنے کے لئے سپریم کورٹ کئی بار ریاستی سرکار کو کارروائی کی ہدایت دے چکی ہے۔ درگا شکتی نے جو کیا وہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے بھی مطابق تھا ۔ اس لئے معاملہ ویسا نہیں جیسا سماجوادی پارٹی اور اکھلیش سرکار دکھانا چاہتی ہے۔ معاملہ قاعدوں اور ضابطوں کو ایمانداری سے لاگو کرنے کا بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟