ایک طرف چین اور دوسری طرف پاکستان کیا یہ محض اتفاق ہے؟
کیا اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ادھر سرحد پر گشت لگا رہے ہمارے جوانوں کا راستہ چینی فوجیوں نے روک لیا اور انہیں واپس لوٹنے پرمجبور کردیا ۔ اب کشمیر میں پاکستانی فوجیوں نے ہمارے علاقے میں گھس کر سرحد کی نگرانی کررہے پانچ ہندوستانی جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سے ٹھیک پہلے افغانستان کے جلال آباد شہر میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اشارے پر دہشت گردوں نے ہمارے قونصل خانے پر بمدھماکہ کیا ، کیا یہ بھی اتفاق ہے۔ اگر پاکستان کے کسی نئے پلان کا حصہ ہے تو یہ معاملہ مزید سنگین بن جاتا ہے۔ جموں وکشمیر میں پاک فوج اور دہشت گردوں نے پانچ فوجیوں کا قتل وہ بھی ہندوستانی سر زمین پر کرکے جتا دیا ہے کہ آنے والے وقت میں سرحد میں رنگ میں بھنگ ہونے والا ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے پاکستانی فوج مسلسل اکسانے والی کارروائی کررہی ہے۔ پیر کو آدھی رات کے بعد جموں و کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں واقع کنٹرول لائن سے لگے علاقے میں واقع سرلا چوک پر پاکستانی فوجیوں نے گھات لگاکر اندھا دھند فائرنگ کردی۔ پاک فوجیوں کی اس ہمت اور اکسانے والی کارروائی میں بہار ریجمنٹ 21 کے ایک صوبے دار اور چار جوان شہید ہوگئے۔ ہماری فوجی ٹکڑی چکاداباغ چوکی سے نارتھ کی سمت میں گشت کے لئے نکلی کے پاکستانی بارڈر کے پاس ٹیم کے ایک 16-18 ممبروں نے سرحد پار کرکے ہندوستانی سرحد میں سوا دو بجے ہمارٹکڑی پر حملہ کردیا۔بھارتیہ جوانوں کو تین طرف سے گھیر کر حملہ بولا گیا۔ اسی برس 8 جنوری کو 2 ہندوستانی فوجیوں کو قتل کردیا گیا تھا ان میں سے ایک فوجی کا سر قلم کرکے لے گئے تھے۔ بھارت ۔پاک کے درمیان2003ء میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی کا سمجھوتہ ہوا تھا اسکے بعد سے 2010ء میں 44 باراور2011ء میں 51 بار ، 2012ء میں9 بار اور اس سال اب تک37 بار پاکستان سرحدی سمجھوتے کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ 2010ء سے2012 ء کے درمیان تقریباً 1 ہزار بار دہشت گردوں کی گھس پیٹھ کی کوششیں ہوئیں۔ اس دوران ہندوستانی فوجوں نے 160 دہشت گردوں کو مارگرایا۔ آج بھی پاکستان و پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں42 دہشت گردی کے تربیتی کیمپ چل رہے ہیں۔ کل ملاکرہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ساری کوششوں کے باوجود پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر یہ اچانک شروع ہوئے سلسلے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان اس لئے نہیں باز آرہا ہے کہ بھارت سرکار نے پاکستان کے تئیں حد سے زیادہ ٹال مٹول رویہ اپنایا ہوا ہے۔ سرکار بڑی ڈھٹائی سے مان رہی ہے کہ اس سال گھس پیٹھ کے واقعات دوگنی ہوئے ہیں اورجنگ بندی کی خلاف ورزی خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ یہ دونوں واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ گھس پیٹھ سے ہمارے فوجیوں کی توجہ بٹانے کے لئے پاکستانی فوجی بھاری فائرنگ کررہے ہیں اورجنگ بندی توڑتے ہیں۔ پاکستان میں فوج اور دہشت گردوں کے رشتوں کو دیکھتے ہوئے ہمارے وزیر دفاع اے۔کے۔انٹونی کا پارلیمنٹ کے سامنے یہ کہنا کوئی مطلب نہیں رکھتا کے حملہ آور اصل میں پاکستانی فوج کی وردی میں آئے تھے جو آتنکی تھے۔ تعجب نہیں کہ پاکستان نے اپنے بیان میں ایسے واقعے سے انکار کردیا ہے۔ انٹونی کے بیان سے ایک بار پھر بھارت سرکار کی ٹال مٹول والی پالیسی سامنے آگئی ہے۔ ہم کسی بھی طرح کی جوابی کارروائی کرنے میں محض ناکام ثابت ہورہے ہیں بلکہ پاکستان میں بھارت کو کمزور اور بزدل کھلے عام طور پر کہا جارہا ہے جو ڈر کے مارے کوئی جوابی کارروائی نہیں کرسکتا۔ ادھرچین کی سرحد پر سینہ زوری ادھر پاکستانی سرحد پر کھلے عام حملہ کہیں ان دونوں مورچوں پر ہمیں گھیرنے کی کوئی خطرناک کھچڑی تو نہیں پک رہی ہے؟ پاکستان میں پچھلے دنوں چناؤ میں اچھا خاصہ مینڈینٹ پاکر نواز شریف وزیر اعظم بنیں ہیں اور دونوں دیشوں میں نئی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اب دونوں دیشوں کے آپسی تعلقات بہتر ہوں کیا ہم نواز شریف پر صرف اس لئے بھروسہ کر ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں جوکہ امن اور دوستی کی با تیں کررہے ہیں؟بھارت سرکار کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کے کارگل گھس پیٹھ کے وقت بھی نواز شریف کے ہاتھوں میں اقتدار تھا اور باگ ڈور تھی اور ایسے میں کئی حقائق سامنے آچکے ہیں جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انہیں اس گھس پیٹھ کی پوری جانکاری تھی۔ سچ کیا ہے پتہ نہیں لیکن ہم بار بار دھوکہ کھانے کو تیار نہیں ہیں۔ اب تو ساری دنیا جان گئی ہے کہ نواز شریف بھی پاک فوج اور دہشت گردانہ تنظیموں کے اشاروں پر ہی چلیں گے اور یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گیا ہے کہ پاکستانی فوج اور اس کی آئی ایس آئی لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی دہشت گرد تنظیموں کے سہارے بھارت کے خلاف ایک درپردہ جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت سرکار کو ابھی بھی اس کی زیادہ فکر ہے کہ پاکستان سے کیسے رشتے بحال ہوں؟ اگر بھارت سرکار پاکستان کے سلسلے میں اپنی پالیسی نہیں بدلتی اور کچھ سختی نہیں دکھاتی تو بے عزتی کے ایسے لمحوں سے بچنا مشکل نظر آتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں