ہم ساتھ ہیں کیونکہ ہمارا ہر تیسرا لیڈ داغی ہے!
اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ میں بات کررہا ہوں ہماری سیاسی پارٹیوں کی اور ہمارے عوامی نمائندے یعنی ممبران پارلیمنٹ کی۔ انہیں اپنے مفادات کی کتنی فکر ہے یہ مانسون اجلاس سے پہلے آل پارٹی میٹنگ میں صاف ہوگیا۔ ویسے آل پارٹی میٹنگیں تو کئی ہوئیں لیکن اتفاق کبھی کبھی ہوتا ہے لیکن یہ اشو ایسا تھا کے سبھی ممبران پارلیمنٹ کو مریاداؤں ، دلیل، شفافیت سے زیادہ فکر اپنی تھی۔ انہیں اس بات کی قطعی فکر نہیں کے وہ سیاسی پارٹی کے موقف کے حق میں کھل کر کھڑے ہوں۔ اپنے آپ کو جنتا کے سامنے بے نقاب کررہے ہیں۔ اشو تھا سپریم کورٹ کا 10 جولائی کا وہ حکم جس میں جیل جانے یا سزا ہونے پر نیتاؤں کے چناؤ لڑنے پر روک لگائی گئی تھی۔ آل پارٹی میٹنگ میں عوامی مفاد کے کئی معاملے جیسے خاتون ریزرویشن، لوک پال بل، برسوں سے جن پارٹیوں کے اختلاف کے سبب لٹکے پڑے ہیں۔ وہی پارٹیاں مجرمانہ شخصیت کے حامل لیڈروں کے حق میں بغیرشرط ایک رائے سے متفق ہوگئے۔ دلیل یہ دی گئی جرائم پیشہ لیڈروں کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے سے پارلیمنٹ کی سپرمیسی کو آنچ آرہی ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے موجودہ ممبر و پارلیمنٹ میں سے30 فیصدی پر مجرمانہ معاملے چل رہے ہیں۔ پارٹیاں یہ بھی دلیل دے رہی ہیں کہ اس فیصلے سے کئی لیڈروں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ 4807 ممبر اسمبلی و ممبران پارلیمنٹ میں سے 1460 کے خلاف مجرمانہ مقدمے چل رہے ہیں۔ ہر پارٹی میں داغی لیڈر موجود ہیں۔ کانگریس سے21 فیصدی نیتا جیت کر آئے ہیں۔ بھاجپا میں قریب31 فیصدی داغی پارلیمنٹ و اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ سپا پر کل 48 فیصدی ایم پی اور ممبران اسمبلی پر مقدمے چل رہے ہیں۔ بہار میں 58 فیصدی، یوپی میں 47 فیصدی داغی ممبران اسمبلی ہیں۔ عوامی نمائندگان قانون کی اس دفعہ8(4) کو منسوخ کرکے بڑی عدالت نے صحیح سمت میں صحیح قدم اٹھایا ہے جس میں دو سال سے زیادہ کی سزا پانے والا عوامی نمائندہ چناؤ لڑنے کے نااہل ہوجاتا ہے لیکن پہلے سے ایم پی یا ممبر اسمبلی تین مہینے کے اندر اپیل کر اپنے عہدے پر بنا رہ سکتا ہے۔ پارلیمنٹ کی سپرمیسی کا حوالہ دینے والے بھول جاتے ہیں کہ آئین کو نظرانداز کر کوئی قانون بنایا جائے تو بڑی عدالت کے پاس اس پر جائزہ لینے کا بھی اختیار ہے اور اسے منسوخ کرنے کا بھی۔ سیاسی پارٹی یہ دلیل دے رہی ہیں کہ عوامی نمائندہ قانون اور اطلاعات حق قانون کا ان کے خلاف بیجا استعمال ہوسکتاہے۔ کیا وہ ایسا ایک بھی قانون بتا سکتی ہیں جس کا بیجا استعمال نہ ہوتا ہو؟ دیش دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں جس کے بیجا استعمال کا اندیشہ بنا رہتا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ غیراخلاقیت کوتحفظ دیا جائے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی پارٹیاں ٹھیک ایسا کررہی ہیں۔ بلا شبہ پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن نہ تو جمہوریت میں عوامی توقعات کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی آئین کو۔ سیاسی پارٹیاں جان بوجھ کر ایسا کرنے پر آمادہ ہیں۔ آخر ایسی پارلیمنٹ اپنے وقار کی حفاظت کیسے کر سکتی ہے جو مجرمانہ کردار والے لوگوں کو تحفظ دینے اور سیاسی پارٹیوں کو منمانی کرنے کی چھوٹ دینے کی علامت بننے جارہی ہیں۔ جیسا کے میں نے کہا کہ ان کے پاپی پیٹ کا سوال ہے، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں