ایڈیشنل سیشن جج راجندر شاستری کا حوصلہ افزاء فیصلہ!

دہلی میں اور کئی ریاستوں میں پولیس نظام میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر یعنی ایس ایچ او ایک بہت اہم کڑی ہوتا ہے۔کسی بھی علاقے کے تھانے میں اے سی پی اور ایس ایچ او ہی تھانے کو چلاتے ہیں۔ اے سی پی سے لیکر پولیش کمشنر تک سبھی کو ایس ایچ او کے ذریعے سے قانون و نظام چلانا ہوتا ہے اس لئے ایس ایچ او ایماندار اور اچھے کردار والا ہونا ضروری ہے اور یہ بات دہلی کے نئے پولیس کمشنر بھیم سین بسّی اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ گذشتہ منگلوار کو سیول لائن میں واقع شاہ ایڈیٹوریم میں انسپکٹر اور ایڈیشنل پولیس کمشنر سطح کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے بسیّ نے کہا کہ راجدھانی کے تھانوں میں تعینات ایس ایچ او کے خلاف کسی بھی طرح کے کرپشن کی شکایت ملنے پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کئی ایس ایچ او اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کر لوگوں سے پیسہ لیتے ہیں؟ اب وقت آگیا ہے کہ جب ایسے ملازم اپنے طریق�ۂ کار میں تبدیلی نہیں لائے تو شکایت ملنے پر ان پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے راجدھانی میں رہنے والی خواتین اور لڑکیاں اپنے آپ کو عدم تحفظ محسوس کرتی ہیں۔ انہیں اکیلے میں گھر سے نکلنے میں ڈر لگتا ہے، اس حالت کو ہمیں بدلنا ہوگا۔ مسٹر بسیّ کی ترجیحات تو صحیح ہیں لیکن ان پرکتنا عمل ہوتا ہے یہ دیکھنے کی بات ہے۔ جب عورتوں کی بات کریں کے جب مہلا تھانے میں پولیس وردی میں محفوظ نہیں تو باہر کیاعالم ہوگا آپ خود ہی اندازہ لگا لیں۔ گذشتہ دنوں ساکیت کے ایڈیشنل سیشن جج راجندرکمار شاستری نے ایک نچلی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے خاتون کانسٹیبل کی شکایت پر ایک ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی۔ معاملہ کالکاجی تھانے کے علاقے کا ہے۔ بتایا جاتا ہے کے کالکاجی تھانے میں اس وقت تعینات خاتون کانسٹیبل سومیکا بھاٹی اور انسپکٹر بی ۔ایس راناکے درمیان تنازعے کا ہے۔اس معاملے میں 22 سالہ خاتون کانسٹیبل نے شکایت کی تھی کے7 جنوری 2012ء کو جب کالکا جی تھانے میں رات کو وہ ڈیوٹی کررہی تھی تب اسے فوراً ایس ایچ او نے رات1 بجے پہلی منزل پر بنے ریسٹ روم میں بلایا اور چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی۔ اس کے خلاف متاثرہ لڑکی نے جرائم کی دفعہ 156(3) کے تحت کارروائی کرنے کی مانگ کرتے ہوئے اے سی ایم ایم کے یہاں مقدمہ دائر کردیا۔ متاثرہ نے اپنے علاقے (ساؤتھ ایسٹ ) کے ڈی سی پی سے بھی اسی دن شکایت درج کرائی تھی لیکن کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ اسی درمیان متاثرہ لڑکی کا تبادلہ سریتا وہار تھانے میں کردیا گیا۔ تھانہ انچارج رانا کے خلاف شعبہ جاتی جانچ بٹھا دی گئی اور اس پر سینسر شپ لگا دی گئی۔27 جون 2013ء کو متاثرہ کی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کردی گئی کے ملزم کے خلاف کارروائی کی کوئی بنیاد نہیں بنتی۔ اس کے خلاف متاثرہ لڑکی نے ایڈیشنل سیشن جج راجندر کمار شاستری کی عدالت میں اپیل کی اور سبھی حقائق اور دلیلوں پر غور کرنے کے بعد عزت مآب جج موصوف نے کہا کہ نچلی عدالت معاملے کی سنگینی کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ ملزم متاثرہ کاباس ہے اور ایس ایچ او یہ جگہ ملازمت پر ایک خاتون سے جنسی اذیت رسانی کا معاملہ بنتا ہے۔ ایسے معاملوں میں مناسب تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیش معاملے میں کسی آزاد گواہ کا کوئی سوال نہیں ہے کیونکہ یہ واردات رات کو 1 بجے اور تھانے کی پہلی منزل پر بنی آرام گاہ میں ہوئی تھی جو سنسان رہتی ہے۔ متاثرہ لڑکی کو رات 1 بجے ریسٹ روم میں بلایا گیا تھا۔ وہ شعبہ جاتی جانچ کے دوران ملزم پر لگی سینسر شپ سے ظاہر ہے اس سے پیڑت کی شکایت کو مضبوطی ملتی ہے۔ پورے معاملے کی جوائنٹ سی بی (ویجی لنس) نے بھی جانچ کی ہے۔ ایس ایچ او جیسے کسی طاقتور افسر کے خلاف کوئی خاتون ملازم بلاوجہ الزام نہیں لگائے گی۔ عدالت نے اس بات پر بھی ناراضگی جتائی کے بغیر ایف آئی آر درج کئے متاثرہ لڑکی کا تبادلہ کردیا گیا۔ دہلی پولیس کے رویئے کو افسوسناک بتاتے ہوئے جج صاحب نے کہا کہ جس دہلی پولیس کی ذمہ داری کرائم روکنے کی ہے اسی پولیس نے اپنی ایک خاتون ملازم کے ساتھ ہوئے کرائم کے خلاف آنکھیں بند کرلی ہیں۔ اپنے فیصلے میں جج شاستری نے کہا کہ پہلی نظر میں معاملے کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ کرائم ہوا ہے۔ اس وقت کے ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ سے متاثرہ لڑکی کی شکایت پر مناسب کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ ہم ایڈیشنل سیشن جج راجندر کمار شاستری کو اس حوصلہ افزاء فیصلے پر مبارکباد دیتے ہیں۔ ایسے وقت پر عورتوں پر ہر سطح پر جرائم بڑھ رہے ہیں۔ خود پولیس ہی اپنی خاتون ملازموں سے ایسا برتاؤ کرے، برداشت سے باہر ہے۔ جب خود پولیس افسر ایسے برتاؤ اپنے ساتھیوں سے کرے گا تو جنتا کا کیا ہوگا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟