مودی کا مشن 2014 اور مسلم ووٹ!

حالانکہ ایک کے بعد ایک سروے جو آرہے ہیں وہ بھلے ہی این ڈی اے کو2014ء لوک سبھا چناؤ میں ڈیڑھ سو کے آس پاس سیٹیں دے رہے ہوں لیکن نریندر مودی کی رہنمائی سے گد گد بی جے پی نے اپنے دم پر 272 سیٹیں جیتنے کا نشانہ طے کرلیا ہے۔ ایتوار کو نئی دہلی میں ہوئی قومی چناؤ مہم کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں پارٹی صدر راجناتھ سنگھ نے کہا کہ انہیں بھروسہ ہے کہ پارٹی اس مرتبہ اپنے دم پر اکثریت حاصل کرلے گی۔ میٹنگ میں لال کرشن اڈوانی سمیت تمام نیتا موجود تھے۔ اس چناؤ کمیٹی کی میٹنگ کی صدارت نریندر مودی نے کی۔ انہوں نے راجناتھ سنگھ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر272 سیٹوں کا نشانہ حاصل کرنا ہے تو دیش کے ووٹروں کے ہر طبقے کو ساتھ لیکر کوشش کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا مسلم ووٹ بی جے پی کو نہیں ملیں گے یہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب گجرات میں 25 فیصدی مسلم ووٹ ہمیں دے سکتے ہیں تو دوسری ریاستوں میں کیوں نہیں؟ گجرات میں مودی کو مسلم ووٹ ملنے پر کچھ اعدادو شمار آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو کچھ دن پہلے گجرات کے ایک مسلم لیڈر مسٹر ظفر نے بتائے۔ ان کا کہنا ہے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ پچھلے 10 برسوں میں گجرات میں خاص کر گجراتی مسلمانوں کی ترقی کے لئے مودی نے کیا کیا؟ 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں31 فیصدی مسلمانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔ مودی کو 2002ء کے فسادات کے لئے دن رات کوسا جاتا ہے۔ بھلے ہی یہ دنگے مودی کے لئے ایک بدنما داغ ہیں لیکن ایسا نہیں کہ یہ فسادات پہلے نہ ہوئے ہوں اور دیش کے دیگر حصوں میں نہیں ہوئے۔ 
بھارت میں آزادی کے بعد کی تاریخ میں سب سے خوفناک فساد 1969ء میں احمد آباد میں ہوئے تھے جس میں 5ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ اس وقت گجرات کے وزیر اعلی کانگریس کے ہتیندر بھائی ڈیسائی تھے او ر دیش کی وزیر اعظم اندرا گاندھی ہوا کرتی تھیں اس کے بعد دوسرا بڑا فساد1985ء میں گجرات میں ہوا جس کے بعد چھوٹے موٹے دنگے مہینوں چلتے رہے۔ تب گجرات کے وزیر اعلی کانگریسی مادھو جی سولنکی تھے اور بھارت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی ہواکرتے تھے۔ 1987ء میں گجرات میں پھر فساد ہوئے اور تب بھی گجرات کے وزیر اعلی کانگریس کے امرسنگھ چودھری ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد 1990ء میں پھر دنگے کی آگ بھڑکی۔ اس وقت کانگریس کے ہی چمن بھائی پٹیل وزیر اعلی تھے اور آخر1992ء میں ہوئے فساد کے سمے گجرات کے وزیر اعلی کانگریس کے چیمابھائی پٹیل ہی تھے۔ گجرات کی تاریخ میں سینکڑوں فسادات میں سے ان پانچ بڑے فسادات کے لئے ہمارے دانشور اور مسلمان کسے ذمہ دار مانیں گے؟ اور یاد کیجئے کہ گجرات میں 2002ء کے بعد امن چین قائم ہے تو کیا آج تک مسلمانوں کے محبوب کانگریسیوں نے ان دنگوں میں مارے گئے مسلمانوں کے لئے کبھی اپنے منہ سے ایک بھی لفظ نکالا کیوں؟ کانگریس محض 2002ء کے دنگوں کے لئے روتی رہتی ہے؟ کانگریس کے راج میں ان دنگوں میں مارے گئے مسلمانوں کا خون خون نہ ہوکر کیا پانی تھا؟ جب گجرات کے مسلمان 2002ء کے دنگوں کو بھول چکے ہیں توکانگریس کیوں انہیں بار بار اچھالتی ہے؟
میڈیا اس بات کو نہیں نوٹ کرتا کہ گجرات اسمبلی چناؤ (2012ء) میں 8 میں سے6 مسلم اکثریتی سیٹوں پر بھاجپا جیتی تھی اور2013ء کے بلدیاتی اداروں میں بھی مسلمانوں نے بی جے پی کو ہی ووٹ دیا تھا۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے کے نریندر مودی کی قیادت میں گجرات میں امن چین اور ترقی کا دور آیا ہے اور مسلمان بس اتنا ہی چاہتے ہیں ۔ کیونکہ ترقی کرنے میں وہ اہل ہیں اگر امن چین رہے حال ہی میں سلمان خان کے والد اور کہانی مصنف سلیم خان نے ایک ٹی وی چینل پر سوال کیا کہ مہاراشٹر میں جب فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے تو کون بتائے گا کہ اس وقت کے وزیر اعلی کا نام؟مسلم فسادات میں اترپردیش کا وزیر اعلی کون تھا؟ میرٹھ دنگوں کے دوران وزیر اعلی کون تھا؟ جب بہار کے بھاگلپور میں فساد ہوئے تو وہاں کانگریس کی حکومت تھی کیا کسی کو یاد ہے کہ 1984ء کے دہلی دنگوں میں کون وزیراعلی تھا؟ تو پھر کیوں اکیلے نریندر مودی کو2002ء کے فسادات کے بارے میں بار بار برا بھلا کہا جاتا ہے؟ مودی نے گجرات میں ترقی کا نیا طریقہ جو اپنایاہے اس میں مذہب۔ ذات کی کوئی جگہ نہیں ہے اسی وجہ سے مہذب مسلم دانشور مولانا وستانوی جو خود ایک گجراتی مسلمان ہیں، کا کہنا ہے کہ گجراتی مسلمانوں نے مودی سرکار کی پالیسیوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور ایک دیگر تاریکین وطن لارڈ ایڈم پٹیل (انگلینڈ) جب بھارت آئے تھے تو انہوں نے گاندھی نگر جاکر نریندر مودی سے ملاقات کی اور گجراتی مسلمانوں کی ترقی کے لئے مبارکباد دی۔ یہ ہی نہیں گجرات کے مسلمان ہی اکیلے مودی کی حکومت کی تعریف کرتے ہیں۔ایک مسلم اخبار’ملی گزٹ‘ کو دئے گئے انٹرویو میں سابق ڈی جی مہاراشٹر ایس۔ ایم شریف نے کہا کہ تمام بھارت میں مسلمانوں کے لئے سب سے محفوظ جگہ گجرات ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان مہاراشٹر نے پہنچایا ہے۔ یہاں پچھلے 10 سالوں سے کانگریس۔ این سی پی کی حکومت چل رہی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک بار مشہور فلم ساز مہیش بھٹ نے چیلنج بھرے لہجے میں کہا کہ نریندر مودی سن رہے ہوں کہ جس مذہب کو تم آئے دن کوستے رہتے ہو کہ یہ آتنک وادیوں کی سرزمیں ہے؟ اس کے رسول نے کیا کہا ہے۔۔۔؟ مہیش بھٹ کو کچھ دنوں کے بعد نریندر مودی نے فون کیا کے مہیش بھائی پانچ مسلمان آئیں ،50 آئیں،500 آئیں میں سب سے ملنے کو تیار ہوں۔ میں آپ کی ساری پریشانیوں کو حل کرنے کے لئے تیار ہوں۔ گجرات میں مسلم مدرسے کے طلبا اب ایس ایس سی اور 12 ویں جماعت کا امتحان دے سکتے ہیں۔ 
مسلم مدرسوں اور ہسپتالوں کی تعداد بڑھی ہے۔ حج کے لئے جہاں گجراتی مسلمانوں کا کوٹہ3500 کا ہے وہاں اب تک 41 ہزار درخواستیں آچکی ہیں۔ حج پر جانا مسلمانوں کی اقتصادی و سماجی ترقی اور سلامتی کی علامت ہے۔ گجرات میں کچھ اور بھڑوچ دو ایسے علاقے ہیں جہاں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ کچھ میں 35 فیصدی مسلمان ہیں بھڑوچ میں20 فیصدی۔ گجرات سرکار کے ملازموں میں 10 فیصدی مسلمان ہیں جبکہ پولیس میں12 فیصدی۔ ان سب کے باوجود کانگریس نریندر مودی کو مسلمانوں کا دشمن کہے تو اس کے پیچھے مقصد صاف ہے۔ یہ صرف سیاسی کھیل ہے اور ووٹ بینک کی سیاست ہے اور یہ بات اب مودی بھی خوب سمجھتے ہیں اور مسلمان بھی۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کے مسلمانوں کو نریندر مودی سے نفرت ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!