مصر پھر اسی موڑ پر آگیا ہے جہاں سے وہ2011ء میں چلا تھا!

بدقسمتی سے مصر اسی دور سے گزر رہا ہے جو تحریک 2011ء میں تحریر چوک سے شروع ہوئی تھی۔ جمہوریت کا خواب چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے۔ ویسے تو جولائی کی شروعات سے ہی محمد مرسی کو معزول کردینے کے بعد سے ہی مصر جل رہا تھا لیکن تب سے اب تک فوج کی بربریت جاری ہے اور جس نوعیت کی ہے اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ تشدد کی تصویریں فوجی ملازمین کی بے رحم حرکتوں کی کہانی بیان کرتی ہیں ۔قریب ساڑھے چھ سو کے قریب مرنے والوں کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ مرسی کے ہٹنے کے بعد سے ہی ان کے حمایتی انہیں پھر سے اقتدار دلانے کی مانگ پر اٹل ہیں لیکن فوج کسی بھی قیمت پر اس کے لئے تیار نہیں دکھائی پڑتی اور یہ ٹکراؤ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ بدھوار کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فوجی کارروائی میں 500 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ جنوری2011ء میں تیونس میں ’عرب بسنت ‘کے نام سے شروع ہوئے تبدیلی نظام کی لہر ایک ایک کرکے اب عرب ممالک میں پہنچ گئی ہے۔ مصر بھی اس سے اچھوتا نہیں رہا اور اس میں18 دنوں کے انقلاب کے بعد 11 فروری2011ء کو ڈکٹیٹر حسنی مبارک کا تختہ پلٹ دیا اور جمہوریت کی طرف قدم بڑھائے۔ مبارک کی قریب تین دہائی چلی تاناشاہی کے دوران گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہے آگ بگولہ مصری باشندوں کو انقلاب کے مقام پر لا کر کھڑا کردیا ہے۔ مبارک کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد فوج کی نگرانی میں ہوئے انتخابات میں مصر کو جمہوریت کا راستہ دکھایاگیا اور مسلم تنظیم برادر ہڈ(اخوان المسلمین) کے لیڈر محمد مرسی کو صدر کی شکل میں دیش کی باگ ڈور سونپی گئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ جمہوری سرکار کے سربراہ کے طور پر مرسی نے مصر کے آزاد اداروں کو ایک ایک کرکے ختم کردیا اور ساری طاقت مسلم برادر ہڈ کے ہاتھوں میں مرکوز کرکے انہوں نے صاف کردیا تھا کہ فوجی مشینری کے اقتدار والے مصر میں اب کٹر پسند راج چلے گا۔ بیشک مسلم برادر ہڈ ایک کٹر پسند تنظیم ہے لیکن انہیں دہشت گردوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ فوج دلیل دے رہی ہے کہ ملک کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔ اس معاملے میں سب سے اعتراض آمیز رویہ تو امریکہ کا ہے۔ صدر براک اوبامہ نے دکھاوے کے طور پرا س تشدد کی مذمت کی اور احتجاج کے طور سے دو سال میں ہونے والی امریکہ۔ مصر فوجی مشقوں کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا جبکہ 2011ء میں تشدد کے سبب یہ نہ ہوپائیں تھیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے قتل عام پر خاموشی اختیار کر جلد چناؤ کی مانگ کرتے ہوئے پوری طرح وضاحت کردی ہے کہ بڑی طاقت والا دیش (امریکہ ) مصر کی فوج کے ساتھ ہے۔ مرسی کے تختہ پلٹ کے بعد سے اب تک تین بڑے تشدد کے واقعات ہوئے ہیں جس میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئی ہیں پھر بھی مسلم برادر ہڈ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے مصر کے سبھی فریقوں کو تشدد ترک کرنے اور صبر سے کام لینے کی اپیل کی ۔ کئی ملکوں نے اپنے شہریوں کو وہاں کے سفر سے متعلق الرٹ جاری کیا ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے انترم حکومت کی وکالت کرتے ہوئے مظاہرین کو دہشت گرد بتایا ہے۔ مصر میں یہ خونی حالات کب ختم ہوں گے؟
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟