پردھان منتری منموہن سنگھبنام بھاوی پردھان منتری نریندر مودی!

یوم آزادی کے ٹھیک ایک دن پہلے گجرات کے مکھیہ منتری اور بھاجپا کے چناوی مہم کمیٹی کے سربراہ نریندر مودی نے کہا تھا کہ دیش 15 اگست کودو پیغام سنے گا ۔ ایک بھاشن روایتی طورسے لال قلعہ سے ہوگا۔تو دوسرا لال کالج سے ہوگا۔ ان دونوں تقریروں کی بنیادپر لوگ اپنی رائے طے کریں گے۔انہی دعوؤں کے دوران جمعرات کو ادھر پردھان منتری منموہن سنگھ نے دیش کو دسویں بار لال قلعہ سے مخاطب کیا وہیں نریندر مودی نے منموہن سنگھ کی ہر بات اور دعوے کا جواب دیا۔ نریندر مودی کے اس قدم کی کچھ لوگ تنقید بھی کررہے ہیں۔ سینئر بھاجپا نیتا لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ یوم آزادی جیسے دن نیتاؤں کو ایک دوسرے کی تنقید نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے آج ڈاکٹرمنموہن سنگھ کو سنا یوم آزادی کے موقعہ پر آج کسی کی بھی آلوچنا کئے بغیر ہم سب کو مخصوص کرنا چاہئے کہ بھارت کے پاس مستقبل کے لئے لامحدود صلاحیت ہے۔ شری اڈوانی کے وچاروں سے زیادہ تر بھاجپا اور خاص کر مودی حمایتی ناراض ہے ان کاکہنا ہے کہ پردھان منتری کابھاشن ایک کانگریس ترجمان کی طرح تھا۔ انہوں نے کانگریس پارٹی والے راجیوں کی تو تعریف کی لیکن بھاجپا والے راجیوں کاذکر تک نہیں کیا۔ کیا یہ دیش کا پردھان منتری بول رہا تھا؟ ویسے بھی ڈاکٹر منموہن سنگھ کا لگ بھگ آدھے گھنٹے کے بھاشن میں وہی دقیانوسی باتیں کہی گئیں۔ حالانکہ امید تو یہ تھی کہ منموہن سنگھ اپنے دسویں بھاشن میں ضرور کوئی اچھی باتیں کہے گے۔ پردھان منتری منموہن سنگھ کو سیدھی چنوتی دے کر نریندرمودی نے بھاجپا کے پردھان منتری عہدے کے امیدوار کی شکل میں خودکو پیش کردیا ہے۔ بھج کے لال کالج کے میدان سے لال قلعہ کے لئے اپنی دعوے داری پیش کرتے ہوئے انہوں نے منموہن سنگھ بے حد تیکھے نشانے سادھے۔ شاید یہ پہلی بار ہوگا جب یوم آزادی جیسے موقع پر کسی پردھان منتری کے بھاشن پر اپوزیشن کے کسی نیتا نے اتنی سخت تنقید کی ہو۔ نریندرمودی لیک سے ہٹ کر چلنے والے نیتا تو ہیں ہی، وہ اپناراستہ بھی خود طے کرتے ہیں۔ بھاجپا بھلے ہی مودی کی حسب معمول کے طور پردھان منتری عہدے کے امیدوار کے طور پر اعلان کرنے میں دیری کررہی ہو، لیکن مودی نے خود ہی آگے بڑھ کر پردھان منتری کو سیدھی چنوتی دے کر صاف کردیا ہے کہ 2014میں مقابلہ ان سے ہی ہونا ہے۔ اس پینترے سے مودی نے بھاجپا قیادت پر پردھان منتری عہدے کاامیدوار اعلان کرنے کا بھی دباؤ بڑھادیا ہے۔ 15اگست پر پردھان منتری کو دئے گئے چیلنج اور ان کے بھاشن کی تنقید ہورہی ہو لیکن بھاجپا اور سنگ کے زیادہ تر حمایتیوں نے اسے پسند کیا ہے۔ ان کے حمایتی کہہ رہے ہیں کہ یہ حملہ کن تیور ضروری ہے ۔ دھارضروری ہے۔ دھاردار وار سے دیش بھر میں ایک اپیل جاری ہے۔ نوجوانوں کے علاوہ ان طبقوں کے لوگوں کو بھی مودی لبھا رہے ہیں جو ترقی پر یقین کرتے ہیں یا وہ جو اکثر خاموش رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مودی کو زیادہ پسند کرنے والوں کا خیال ہے کہ ضرورت سے زیادہ شدت پسندی مہنگی کی بھی پڑ سکتی ہے۔ کئی نیتا اسے غیرپختگی کی شکل میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ یہ سبب منظوری کے سوال کو اوربڑھا سکتا ہے۔ وہی کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ لا ل کرشن اڈوانی کے اہم رول میں ہونے سے محاذ کے بڑھنے کے آثار مودی کے مقابلے زیادہ ہے۔ادھر کانگریس کو بھاجپاکھلنائیک بتا رہی ہے۔ کانگریس نے مودی پر پلٹ وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ گری ہوئی راج نیتی کررہے ہیں۔ مرکزی وزیر سلمان خورشید نے کہا کہ پردھان منتری سب سے آخر میں آئیں گے۔ پہلے وہ ہمارے ساتھ بحث کریں۔ انہوں نے کہا کہ مودی پردھان منتری بننے کے لئے اتنے اتاؤلے ہے۔ مودی کے ساس بہو اور داماد سیریل کا ذکر کرنے پر خورشید نے کہاکہ وہ کھلنائک ہے۔ غلام نبی آزاد نے مودی اور پردھان کامقابلہ خارج کردیاہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرمیں کہوں کہ اوبامہ سے بڑا ہوں تو لوگ مجھے پاگل کہیں گے کیا راج بھوج اور کہا گنگو تیلی میں کوئی موازنہ ہوسکتا ہے؟ ہمارا کہناہے کہ کون راجہ بھوج اور کون گنگو تیلی ہے۔ اس کا تو ہمیں پتہ نہیں ہے لیکن اگر ایک منٹ کے لئے مان بھی لیاجائے کہ نریندر مودگی گنگو تیلی ہے تو اس تیلی نے راجہ بھوج کی ہوا نکال دی۔ پردھان منتری کی رپورٹ کارڈ میں کسانوں کی محنت کی وجہ سے ہی ہم فوڈ سیکورٹی قانون پر آگے بڑھیں۔ منریگا کی بدولت دیہی علاقوں میں کروڑوں غریب لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔ بھار ت میں ہر بچہ کو تعلیم کے مواقع دینے کے لئے ہم نے تعلیم کے حقوق کے قانون بنائے۔ مڈ ڈے میل اسکیم میں روزانہ تقریبا11 کروڑ بچوں کو سکول میں دوپہر کا کھانا دیاجارہا ہے۔ 2005 میں ہم نے قومی دیہی صحت مشن کی شروعات کی تھی۔ مادریت اور نوزائیدہ شرح اموات دونوں تیزی سے گھٹی ہے۔ کچھ سے کرارا کٹاکش کرتے ہوئے مودی کاجواب تھا ترقی اور اچھی سرکار پر ہم سے بحث کریں ۔ پی ایم، نہرو کے آخری بھاشن جیسا تھا، ان کا سمبودھن۔ کانگریس میں بدعنوانی،پریوار واد مضبوط ہے، پہلے ماما بھانجہ اور اب ساس بہو اورداماد کا سیریل چل رہا ہے۔ راشٹرپتی نے سین شکتی بدعنوانی کا سوال اٹھایا لیکن پی ایم چپ، پاکستان اور چین کے سامنے بھی لاچار ہے مرکز۔ ترقی کے مورچے پر ناکام سرکار، اندراگاندھی کی اسکیموں کو بھول گئی کانگریس۔ جیسے انگریزوں سے نجات پائی ویسے ہی بدعنوانی اور خراب طریقے سے سرکار سے لڑناہوگا۔ پردھان منتری نے ترقی کے لئے نہرو، اندراگاندھی، راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ کے تعاون کا تو ذکر کیا لیکن سادگی والے لال بہادر شاستری اور سردار پٹیل کے لئے کچھ نہیں کہا۔ منوہن سنگھ کی اس دلیل کے فوڈ بل غریبوں کی سب سے بڑی کلیان کاری یوجنا پر مودی کا جواب تھا یہ ہے کہ نہ صرف ناکافی ہے بلکہ فوڈ بل سے کسی اور کا پیٹ بھرے گا۔ پی ایم نے کہا کہ ابھی ترقی کے لمبے سفر طے کرنے ہے اس پر مودی نے کہا کہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ منموہن سنگھ کالال قلعہ پر آخری بھاشن ہے تو پھر کس سفر کی بات کررہے ہیں؟ پاکستان اور چین کے اکسانے پر بھارت کی کمزور لچیلا عمل پر منموہن سنگھ کی تنقید کرتے ہوئے مودی نے ان پر تیکھا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ بھاشن میں پردھان منتری کو پاکستان کو سخت پیغام دیناچاہئے تھا۔ بدعنوانی کے خلاف جنگ کیوں نہیں چھیڑ سکتے؟ اس بدعنوانی کا جنم کہا سے ہوا ہے کیا دیش کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ قیادت کے سوال پر بھی مشن 2014 کو انجام تک پہنچانے کی کوشش میں جٹے نریندرمودی کی تیاری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آدھے گھنٹے پردھان منتری کے یوم آزادی کے سمبودھن کا جواب مودی نے ایک گھنٹہ تک دیا منموہن سنگھ کی نوسال کی حصولیابیوں کے ساتھ ہی کانگریس کے 60سال کے دورے اقتدار کی بخیاں نریندرمودی نے ادھیڑ کر رکھ دی۔

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟