شام فوج نے دمشق کے فاؤٹا میں کیمیائی حملہ کیا!

اپنے ہی شہریوں کے خلاف اس طرح کے ہتھیار سے آدمی کیسے حملہ کرسکتا ہے ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ شام کے صدر اسد نے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف کیمیائی حملہ کیا ہے۔ شام میں فوج اور باغیوں کے درمیان کافی عرصے سے چلی آرہی لڑائی نے بدھ کے روز ایک نہایت خطرناک موڑ لے لیا ہے۔ شام کے صدر اسد کے فوجیوں نے دمشق میں کیمیائی حملہ کر سینکڑوں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ شام کے باغیوں نے زہریلی نرو گیس سے کئے گئے اس حملے میں کم سے کم1300 لوگوں کی موت ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر بڑی تعداد میں بکھری پڑی لاشوں کی تصویریں بتاتی ہیں کہ قتل عام خوفناک ہے اور بڑی تعداد میں معصوم بچے اور عورتیں ماری گئی ہیں۔ اگر باغیوں کا دعوی صحیح ہے تو یہ حالیہ دہائیوں میں کیمیائی حملے میں قتل عام کا یہ سب سے بڑا معاملہ ہے۔ حالانکہ اسد حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی بات سے صاف انکار کیا ہے اور فوراً بین الاقوامی مداخلت کی مانگ کی ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ملکوں سے اقوام متحدہ کے ماہرین سے اس معاملے کی جانچ کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسد کے وفادار فوجیوں نے راجدھانی دمشق کے چھوٹے علاقے فاؤٹامیں کیمیائی ہتھیاروں سے یہ حملہ کیا۔ حملے کا ایک ویڈیو یو ٹیوب پر بھی ڈالا گیا ہے جس میں لوگوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ ویڈیو میں لوگوں کا ہسپتال میں علاج ہوتے بھی دکھایا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کیمیائی حملے کے بعد جنگی جہازوں سے بمباری بھی کی گئی ہے۔ نرو گیس کی دو کیٹیگری ہیں ’جی‘ اور’ وی جی‘۔یہ زہریلی گیس ہے جو ہر چیز کو ختم کردیتی ہے۔ جس سے زندہ رہنے کے لئے ضروری جسمانی خلئے خراب ہوجاتے ہیں۔ عراق میں1988ء میں صدام حسین کی فوج نے حلبزہ میں کیمیائی گیس سے حملہ کیا تھا۔ اس میں تقریباً5 ہزار کرد لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ شامی فوج کے پاس 300 سے زیادہ بی ایم21 کثیر المقصد راکٹ لانچر ہیں۔ ان سے120 ملی میٹر کے راکٹ میں دو کیمیائی ہتھیار لوڈ کئے جاسکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سرین گیس (نرو گیس) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ شامی فوج کے پاس 650 ٹن سرین گیس ہے۔ شامی فوجیوں کا یہ سال میں ساتویں بار کیمیائی حملہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق مارچ2011ء میں شروع ہوئی خانہ جنگی میں شام میں اب تک 1 لاکھ20 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ اور 17 لاکھ سے زیادہ لو گ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن کا دعوی ہے اب تک1400 سے1450 لوگ کیمیائی حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔ شام میں صدر بشرالاسد طویل عرصے سے اقتدار پر قابض ہیں۔ ارب انقلاب کے دوران ان کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے اپوزیشن پہلے سڑکوں پر اتری لیکن بعد میں یہ لڑائی خونی جھڑپوں میں بدل گئی۔ اسد اقلیتی شیعہ فرقے سے آنے کے بعد بھی اقتدار پر قابض ہیں اور وہاں اکثریتی سنی اپوزیشن ان کو برداشت نہیں کرپارہا ہے۔ اسد سرکار کی اب مصیبتیں بڑھنے کی امید ہے۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل شام پر فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ لے سکتی ہے۔ امریکہ نے مبینہ طور پر عراق میں اسی طرح کے اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں کا الزام لگاتے ہوئے2003ء میں اس پر حملہ کرتے ہوئے صدام کا تختہ پلٹا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟