ریکارڈ کامیابی کی جانب گامزن بھارتیہ جنتا پارٹی!
شری نریندر مودی کے مرکزیت میں آنے سے ماحول توپتہ نہیں کتنا بدلہ ہے لیکن نیتاؤں اور بھاجپا ورکروں میں نیا جوش ضرور آگیا ہے۔ حالانکہ ابھی بھی میری رائے میں بھاجپا کانگریس کی اصلی متبادل نہیں بن پائی لیکن پہلے سے بھاجپا کی حالت بہتر ضرور ہوئی ہے۔ تبھی تو بھاجپا کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے کہا کہ آنے والے لوک سبھا چناؤ کے نتیجے چونکانے والے ہوں گے۔ اس میں پارٹی کو بھاری کامیابی ملے گی۔ انوسوچت جاتی مورچہ کی قومی ایگزیکٹو سے خطاب کرتے ہوئے اڈوانی نے کہا جس طرح سے اشارے مل رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ 2014ء کے عام چناؤ وقت سے پہلے ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبھی اندازے پارٹی کے حق میں ہیں اور انہیں پوری امید ہے بھاجپا ریکارڈ جیت درج کرکے اقتدار میں آئے گی۔ کچھ اخباروں میں شائع سروے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا عام طور پر یہ سروے بھاجپا کے خلاف پہلے سے طے ہوتے ہیں لیکن ماضی میں چناؤکا اندازہ جتاتے ہوئے اڈوانی نے کہا لوک سبھا چناؤ اور اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات اپریل2014 ء تک پورے ہوجائیں گے۔ ہم نے اتنے کم وقفے میں اتنے سارے چناؤ 6 ریاستوں میں اسمبلی چناؤ اور لوک سبھا چناؤ کا اندازہ نہیں کیا۔ چاہ نہ چاہ کر موسم اور دیگر اسباب کو ذہن میں رکھ کر چناؤ کمیشن بھی وقت سے پہلے چناؤ کروانا چاہے گا۔ سرکاربھی وقت سے پہلے چناؤ کرا سکتی ہے۔ ادھر ٹیم مودی نے272 کے نشانے کے ساتھ اپناکام شروع کردیا ہے۔ پارٹی کا سارا زور نوجوانوں پر ہے اور ان کو لبھانے کے لئے آئی ٹی ٹیم نے مورچہ سنبھال لیا ہے۔ یہ ٹیم ڈیجیٹل موبائل و انٹرنیٹ کے سہارے نوجوانوں کو ووٹنگ تک لانے کی مہم میں لگ گئی ہے۔ دیش کے 61 فیصدی نوجوانوں کا نشانہ رکھ کر بنائی جارہی چناؤ مہم کے خاکے میں بھاجپا اس بار روایتی ایڈواٹائزنگ سے زیادہ استعمال سوشل میڈیا کا کررہی ہے۔ اس میں جدید انفارمیشن مواصلاتی تکنیک کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔ ورکروں کو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں ڈیجیٹل موبائل اور انٹر نیٹ کے ذریعے پارٹی کے قومی لیڈروں کی تقریریں و کلیپنگ و مختلف واقعات کی جانکاری کانگریس کی سرکار کے گھوٹالے اور نیتاؤں کے متنازعہ بیان کو عام جنتا خاص کر نوجوانوں تک پہنچائے۔ ہر نوجوان کو پارٹی کی ٹیم اپنے یہاں ٹیلی کاسٹ کرے گی اور اہم بات بھاجپا کے لئے یہ ہے کہ طویل عرصے تک گجرات کو اچھا ماڈل بتاتے آئے لال کرشن اڈوانی نے وزیراعلی نریندر مودی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اپنی تقریر میں جو بھاجپا کے ابھرتے ستارے ہیں ،کئی بھاجپا ورکر انہیں کھلے طور پر ووٹ اکٹھا کرنے اور وزیر اعظم امیدوار کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ سنیچر کو اپنی تقریر میں سنگھ کی دبے الفاظ میں تعریف کی ہے لیکن اس سے یہ لگتا ہے کہ بھاجپا کے اندر مودی کو پردھان منتری تسلیم کرنے کو لیکر اتفاق رائے نہیں بنا۔ مودی کی اندر خانے مخالفت جاری ہے۔ دیکھیں آنے والے دنوں میں اس اشو پر کوئی عام اتفاق رائے بنتا ہے یا نہیں۔ ماحول تو کانگریس کے مخالف ہے لیکن اس کا فائدہ بھاجپا کتنا اٹھا سکتی ہے۔اصل سوال یہ بنا ہوا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں