غریب اور غریبی کا مذاق اڑانے سے باز آئیں!

بیچارے غریب کی اوقات کیا ہے دھننا سیٹھوں کے خلاف منہ کھولے۔ غریبوں سے مذاق کا ایک طریقہ اس یوپی اے سرکار نے ایسی کمیٹیوں میں ڈھونڈ نکالا ہے جوخط افلاس کی لائن تلاش کرنے میں بازیگری کے نئے نئے اعدادو شمار اچھالتی رہتی ہے۔ تازہ مثال پلاننگ کمیشن کی ہے۔جس نے خط افلاس کی لائن کو 27 سے33 روپے کے چکر میں ڈالر کر ایسی ہی بازیگری دکھائی ہے جس پر واویلا مچنا فطری تھا۔ غریب اور غریبی کے تئیں غیر سنجیدہ مذاق پر پورے دیش میں ایسا رد عمل ہوا جس کا یوپی اے سرکار اور کانگریس کو شاید اندازہ نہ تھا۔ انٹرنیشنل پیمانہ جو 2005ء میں طے کیاگیاتھاوہ1.25 ڈالر (تقریباً75 روپے) یومیہ فی شخص خرچ کرنے والے کو غریب مانا گیا ہے جبکہ بھارت میں 27 روپے گاؤں اور33 روپے شہر وں میں روز مرہ خرچ کرنے والا شخص غریب کے زمرے میںآتا ہے۔ پلاننگ کمیشن کے نمبروں کے مطابق یہ چونکانے والی بات ہے کہ کانگریس کے کچھ ایم پی و نیتا اس نمبر کو جادوئی کہہ رہے ہیں۔ کوئی کہتاہے ممبئی میں12 روپے میں کھانا مل جاتا ہے تو کوئی کہہ رہا ہے 5 روپے میں جامعہ مسجدپر پیٹ بھر کھانا مل سکتا ہے۔ ایک نیتا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ 1 روپے میں بھی کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ ان لیڈروں کوراجستھان کے سماجی رضاکاروں نے بھی اسی اندازہ میں جواب دیا ہے۔ شری گنگا نگر ضلع کے سماجی کارکن نے پی ایم ہاؤس اور سونیا گاندھی و راہل گاندھی کے نام 33-33 روپے اور کانگریس ایم پی راج ببر کے نام12 روپے ،رشید مسعود کے نام5 روپے کے منی آرڈر بھیجے ہیں۔ ایسے ہی منی آرڈر دہلی بھاجپا پردھان وجے گوئل بھی بھیج چکے ہیں۔ منی آرڈر کے ساتھ بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ وہ33 روپے میں بھر پیٹ کھانا کھا کھا دکھائیں ۔اگر وہ ان پیسوں میں بھر پیٹ کھانا خود کھا سکتے ہیں یا پھر دیگر کے لئے انتظام کرسکتے ہیں تو چندہ اکٹھاکر اور تھالیوں کے آرڈر بھیجے جائیں گے۔ پلاننگ کمیشن کے تجزیئے اور نیتاؤں کے بے تکے بیانوں سے ہوئے ردعمل کے بعد اب کانگریس پارٹی نقصان کی بھرپائی میں جٹ گئی ہے۔ فوڈ سکیورٹی بل سے پورا سیاسی ماحول پلٹنے کی تیاری کررہی ہے۔ کانگریس کی قیادت میں ہورہے کارناموں پر راج ببر اور رشید مسعود کی تھالی نے جو پانی پھیرا ہے اس کے بعد اب سرکار اور پارٹی نے وزیر اعظم کی سربراہی والی پلاننگ کمیشن کے خلاف زور دار حملہ بول دیا ہے۔ 
کانگریس کے وزیر کپل سبل کے بعد کانگریس جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ نے پلاننگ کمیشن کے خط افلاس کی لائن بنانے پر سنگین سوال کھڑے کئے ہیں۔ وہیں وزیر منصوبہ راجیوشکلا نے تو غریبی کے اس پیمانے کو سرکاری اعدادو شمار بھی ماننے سے انکارکردیا ۔ ان کا سیاسی نفع نقصان یہ بتانا ہے کہ شاید پچھلی این ڈی اے سرکار کے مطابق یوپی اے کی سرکار غریبوں کی بڑی حمایتی رہی ہے لیکن یہ اعدادوشمار اور دعوے پول کھول رہے ہیں۔ آج کے اقتدار اور سیاست دیش کی حقیقت سے کتنی کٹ گئی ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے میں آج دیش کے غریب کی تمام زندگی گزر جاتی ہے۔ اس طرح سے اشو مذاق سے بہتر ہے کہ غریب کی تھالی کا صحیح انتظام کیا جائے اور اس کی غریبی کا مذاق نہ اڑایا جائے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟