ہڑدنگی بائیکرس کی غلطی،پولیس کی بدنامی!

قومی راجدھانی کے انتہائی محفوظ ترین علاقے میں سنیچر کی دیررات بائیکرس کے ہڑدنگ اور پتھراؤ کے بعد پولیس کو فائرننگ کرنی پڑی۔ اس سے بائیک پر اسٹنٹ کرنے والے موٹرسائیکل سوا کرن پانڈے کی موت ہوگئی۔ اس کا دوست پنت شرما زخمی ہوگیا۔ نئی دہلی ضلع پولیس ڈپٹی کمشنر اے۔ سی۔ تیاگی کا کہن ہے کہ سنیچر کی رات قریب2بجکر7 منٹ پر ونڈسر پیلس کے پاس فوج کی پی سی آر نے نئی دہلی پولیس کنٹرول روم کو خبردی کے سنگریلا ہوٹل کے پاس30-35 بائیکرس سوار ہڑدنگ مچا رہے ہیں۔ اطلاع ملتے ہی دوسری پی سی آر میں تعینات نئی دہلی ضلع کے پی سی آر سپر وائزر رجنیش کمار وہاں پہنچ گئے۔ پولیس نے بائیکرس کو اسٹنٹ دکھانے سے روکااور جواب میں ان لوگوں نے پتھراؤ شروع کردیا۔ انسپکٹر پرمار نے بائیک سواروں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانے۔ اس کے بعد انسپکٹر نے اپنی سروس ریوالر سے ہوا میں دوفائر کئے ، اس پر بھی جب بائیکرس ہڑدنگ مچانے سے باز نہیں آئے تو انسپکٹر نے ایک بائیک کے پچھلے ٹائر میں گولی ماری۔ تبھی بائیک چلارہے پنت شرما 19 سال نے اسٹنٹ کرتے ہوئے بائیک کو اوپر ہوا میں اٹھا لیا، اس سے گولی بائیک پر پیچھے بیٹھے کرن پانڈے(18 سال) کی کمر میں لگی اور جسم سے پار ہوکر پنت کی پیٹھ سے رگڑ کھا کر نکل گئی۔ دونوں لڑکوں کو آر ایم ایل ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے کرن کو مردہ قرار دے دیا۔ پنت کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ کرن اپنے خاندان کا اکلوتا بیٹا تھا اور مالویہ نگر میں رہتا تھا۔ ایک چشم دید کے مطابق سنیچر کی رات کو سگریٹ نوشی کرنے کے لئے باہر نکلا تھا اور لی میریڈین ہوٹل کے سامنے پہنچ گیا۔ کچھ بائیکرس وہاں گول چکر پر اسٹنٹ کررہے تھے۔ میں نے ان سے کچھ نہیں کہا کیونکہ ایسا اکثر ہوتا ہے۔ مگر کچھ ہی دیر بعد میں نے دیکھا کہ بائیکرس کے پیچھے پی سی آر دوڑ رہی ہے۔ کچھ بائیکرس پولیس پر پتھراؤ کررہے تھے۔ معاملہ سنگین ہوتے دیکھ میں اپنے گھر واپس آگیا۔ آخر کار وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پہلے کئی بار کی گئی وارننگ ، چالان اور بائیک ضبط کرنے کے بعد قانون و نظام کا مذاق اڑاتے ہوئے بائیکر کرن پانڈے پولیس کی گولی کا شکار ہوگیا۔ اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ فائرننگ صحیح تھی یا غلط۔ کیا پولیس کی کارروائی غلط تھی؟ سپریم کورٹ کے وکیل ڈی بھی گوسوامی کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارروائی قانون کی نظر میں صحیح ہے۔ ٹریفک کے درمیان اگر کوئی بائیکر اس طرح کے خطرناک اسٹنٹ دکھاتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں کی بھی جان خطرے میں ڈالتا ہے۔ وہ اس وقت تعینات پولیس والوں کی بھی نہیں سنتا اور انہیں روکیں تو وہ نہیں مانتے۔ اس کے بعد کارروائی میں کسی کی جان چلی جاتی ہے تو کرائم کے دائرے میں نہیںآتی۔ کرمنل معاملوں کے ایک دیگر وکیل پوجے کمار سنگھ کے مطابق یہ صحیح ہے کہ پبلک پلیس پر اسٹنٹ دکھانے پر اس کے خلاف موٹر ایکٹ قانون کی مختلف دفعات کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اس واقعے میں پولیس فائرننگ صحیح نہیں ہے۔ کئی ٹی وی چینلوں پر دہلی پولیس نے ’مار ڈالا‘ بائیکرس پر فائرنگ کیوں؟ جیسی سرخیاں چلیں۔ غلطی کس کی ہے یہ تو ایس ڈی ایم کی جانچ کے بعد پتہ چلے گا لیکن کیا کسی کو قانون و سسٹم سے کھلواڑ کرنے کی چھوٹ دی جاسکتی ہے؟ کئی بار وارننگ دینے کے باوجود بھی یہ بائیکرس نہیں مانے۔ پچھلے واقعات میں ہلکی لاٹھی چارج کی گئی پھر بھی یہ بائیکرس باز نہیں آئے۔ ان سے نمٹنے کے اور بھی طریقے تھے۔ وارننگ ، آنسو گیس،پانی کی بوچھار، لاٹھی چار متبادل موجود تھے۔ یہ سبھی متبادل کارروائی مظاہروں کو منشر کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ یہ بائیکرس کسی سماجی یا سیاسی مظاہرے کے لئے وہاں اکٹھے نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ تو ادھر ادھر ایک کونے سے دوسرے کونے تک پولیس کو دوڑاتے پھر رہے تھے۔ آخر میں پولیس نے انہیں قابو کرنے کے لئے ایک بائیک سوار کے پیر پر گولی چلائی۔ اسٹنٹ کی وجہ سے وہ کرن پانڈے کو لگی جس میں اس کی موت ہوگئی۔ یہ واردات بچوں کی کارستانی سے بے پرواہ ماں باپ کی کمیوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ماں باپ کو پتہ تک نہیں ہوتا ان کا بچہ اتنی دیررات کو کہاں جارہا ہے، کیا کررہا ہے؟ دہلی پولیس اس واقعہ سے بچاؤ میں نہیں ہے۔پولیس محکمہ اب ایشن کے موڈ میں آچکا ہے۔ سنیچر کے واقعہ کے بعد پولیس نے پارلیمنٹ اسٹریٹ تھانے میں مختلف دفعات کے تحت کیس رجسٹرڈ کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔ حالانکہ جس انسپکٹر کی پستول سے گولی چلی اس کے خلاف ابھی تک کسی طرح کی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ پولیس افسروں کا کہنا ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ اور جانچ رپورٹ آنے کے بعد ہی انسپکٹر کے خلاف کیا کارروائی کرنی ہے تبھی طے ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!