تلنگانہ میں کانگریس نے جوا کھیلا ہے دیکھیں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے؟

یوپی اے سرکار کی تال میل کمیٹی نے تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے لئے اپنی مہرلگادی ہے۔ اس میٹنگ میں اس ریزولیوشن کو اتحادی پارٹیوں نے بھی منظوری دے دی۔ اس کے بعد ریاست اسی مسئلے پر کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کی اہم میٹنگ میں ملک کی 29 ویں ریاست کی شکل میں تلنگانہ کی تشکیل کو ہری جھنڈی مل گئی ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے جمعرات کو کہا کہ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا راستہ تیار کرنے والا بل پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں پیش نہیں ہوگا لیکن نئی ریاست 6 مہینے کے اندر وجود میں آجائے گی۔ نئی ریاست کی تشکیل میں 8 سے9 مہینے لگتے ہیں لیکن ہم جلد سے جلد اس کی تکمیل کی کوشش کریں گے۔ وزیر داخلہ شندے نے کہا آنے والی لوک سبھا اور آندھرا پردیش میں ہونے والے اسمبلی چناؤکے پیش نظرتلنگانہ ریاست بنانے کا فیصلہ لے کر کانگریس نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے۔ پردیش میں بنے سیاسی حالات اور تلنگانہ کا اشو جگن موہن ریڈی کے بڑھتے دبدبے کے چلتے کانگریس مجبوری ہے۔ ریاست میں تیزی سے گھٹتے اپنے مینڈینٹ کو دیکھتے ہوئے کانگریس کا یہ فیصلہ اپنے ڈھہتے قلعہ کا کچھ حصہ بچانے کی کوشش ماناجاسکتا ہے۔ پچھلے دنوں ہوئے بلدیاتی چناؤ کے نتائج سے کانگریس کو صاف نظر آگیا ہے کہ ساحلی آندھرا اور رائل سیما میں کافی حد تک بازی ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ اس کے بعد کافی نازک مسئلے پر کانگریس نے فیصلہ لیا ہے۔کانگریس نے اب اپنی امیدیں تلنگانہ کی سیاست میں دبدبہ رکھنے والی سیاسی پارٹی تلنگانہ راشٹر سمیتی پر ٹکائی ہیں۔ٹی آر ایس کے چیف چندر شیکھر راؤ کو پالے میں لانے کے لئے کانگریس سکریٹری جنرل دگوجے سنگھ نے پارٹی کے دروازے کھول دئے ہیں۔ راؤ بھی پہلے کہہ چکے ہیں اگر کانگریس تلنگانہ ریاست بنانے کا راستہ صاف کرتی ہے تو اپنی پارٹی کو کانگریس میں ملانے کو تیار ہیں۔ مجوزہ تلنگانہ ریاست میں 17 لوک سبھا سیٹیں ہوں گی۔ ایسے میں مرکز کے اقتدار میں قابض ہونے کے لئے کانگریس کو ان سیٹوں کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے لہٰذا ٹی آر ایس پر سوار ہوکر پارٹی اپنے سیاسی منصوبوں کو پانے کی پوری کوشش کرے گی۔ کانگریس اپنے اس قدم کا فائدہ صرف آندھرا پردیش میں ہیں نہیں دیکھ رہی ہے پارٹی کے حکمت عملی ساز اپنے تجزئیے میں اس فیصلے کا پوری ریاستوں پر پڑنے والے اثر اور اس سے کانگریس کو پہنچنے والے ممکنہ فائدے کو بھی دیکھ رہی ہے۔ کانگریس کے حکمت عملی سازوں کے مطابق یہ تجزیہ کچھ حدتک صحیح ثابت ہونے لگا ہے۔ اترپردیش کی بڑی پارٹی بسپا نے ریاست کو 4 حصوں میں بانٹنے کی مانگ سرے سے اٹھا دی ہے۔ کانگریسی بھی اس بٹوارے کے حق میں بیان دے رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں گورکھا مکتی مورچہ نئے سرے سے تحریک پر اتر آئی ہے۔ اس کے علاوہ بوڈو لینڈ علیحدہ جموں اور ودربھ کا معاملہ بھی اٹھنے لگا ہے۔ اگر یہ مانگیں زور پکڑتی ہیں تو یوپی میں حکمراں سپا مغربی بنگال میں ممتا کمزور پڑیں گی اور اس کا سیدھا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔کانگریس کی لیڈر شپ اس وقت ریاست کی سیاست کو درکنار کرکے مرکز کے لئے ہونے والے چناؤ کو سامنے رکھے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی بات یہ ہوگی کہ یوپی اے سرکار کے خلاف اپوزیشن کرپشن، مہنگائی جیسے اشو پر جو ماحول بنانے کی کوشش کررہی ہے اس کی سمت بدل جائے گی۔ علیحدہ ریاست کے جذباتی اشو پر سبھی پارٹیوں کو اپنا نظریہ سامنے رکھنا ہوگا اور وہ اس میں الجھ جائیں گی۔ تلنگانہ کو علیحدہ ریاست بنانے کی کانگریس کی اب سیاسی مجبوری ہوگئی تھی۔ تلنگانہ کو علیحدہ ریاست کا اشو جذباتی سطح پر ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اگر کانگریس چناؤ ہونے تک ٹال دیتی ہے تو اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑ سکتا تھا۔ تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17 سیٹیں ہیں۔ دوسری طرف ساحلی آندھرا اور رائل سیما علاقے میں لوگوں کے جذبات حالانکہ بٹوارے کے خلاف ہیں لیکن پچھلے چار برسوں میں وائی ایس آر کے دیہانت اور ان کے بیٹے جگن موہن کے کانگریس چھوڑ کر الگ وائی آر ایس کانگریس کی تشکیل سے پارٹی کا مینڈیٹ کمزور ہوچکا تھا جبکہ چندرا بابونائیڈو کی تیلگو دیشم اس درمیان مضبوط ہوئی ہے۔ ایسے میں دونوں طرف سے کانگریس کو نقصان دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں تک دیش کی بات ہے ریاستوں کو تقسیم کرنے کے بعد مسئلے سلجھے نہیں ہیں۔ غور کرنے کی یہ بھی بات ہے نئی ریاستوں کا اپنے اصل پردیشوں سے وسائل کے بٹوارے کو لیکرتنازعہ کھڑا رہتا ہے۔ کہیں کہیں تو ضلع اور تحصیل تک کو لیکر تکرار جاری رہتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کیا بٹوارے سے مسئلے سلجھنے والے ہیں؟ تلنگانہ کی بات کریں تو آندھرا پردیش کے ساحلی علاقوں کا موازنہ پٹھاری علاقوں کا پچھڑنا بھی اس کے حصے میں ہے۔ اگر سارے علاقوں تک ترقی کا فائدہ پہنچتا اور مرکزی اسکیمیں ڈھنگ سے عمل میں لائی جاتیں تو شاید نئی ریاست بنانے کی قواعد سے بچا جاسکتا تھا۔ خیر میں نے جو کہا کانگریس نے بھاری جوا کھیلا ہے دیکھیں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے؟

 (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!