بٹلہ ہاؤس مڈبھیڑ میں شہزاد کو سزا جج شاستری کا نپا تلا متوازن فیصلہ!

سرخیوں میں چھائے اور ہائی پروفائل بنے بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑمقدمے میں جج موصوف نے سزا سنا دی ہے۔ ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج جسٹس راجندر کمار شاستری نے اس اہم مشکل مقدمے میں میری رائے میں ایک متوازن نپاتلا فیصلہ سنا یا ہے۔ ایسے ہائی پروفائل مقدموں میں جسے سیاسی زیادہ بنا دیا گیا ہو بہ نسبت قانون و نظام کے ،مقدمے کا فیصلہ آسان نہیں ہوتا۔ ہم جج محترم کی مشکل سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے کسی بھی مقدمے میں سبھی فریقین کو خوش نہیں کیا جاسکتا لیکن زیادہ اہم ہوتا ہے ثبوتوں کی بنیاد پر انصاف کرنا اور انصاف ہوتے دیکھنا۔ یہ کام جج شاستری نے بخوبی انجام دیا ہے۔ انہوں نے نہ تو ملزم فریق کی ساری باتیں مانیں اور نہ پولیس کی۔ جو مانیں اس کی دلیلیں بھی دیں اور جو نہ مانیں ان کو بھی بیان کیا۔بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑ کے اس مقدمے میں قصوروار شہزادکو عمر قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اس کے رشتے داروں کو اب پریشانی اور مایوسی تو ضرور ہوئی لیکن انہیں کہیں نہ کہیں اس بات کی راحت بھی ملی کے اسے پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔ بچاؤ فریق کے وکیلوں نے بھی صاف طور پر اسے قبول نہیں کیا لیکن دبی زبان سے وہ بھی مان رہے تھے کہ عمر قید کی سزا ضرور ملے گی۔ عدالت نے شہزاد کے وکیل کی اس دلیل کو مانا کہ وہ24-25 سال کا نوجوان ہے اور اس کے سدھرنے کی امید ہے اس کے علاوہ پورے مقدمے کے دوران اس کے برتاؤ کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ اس سے پہلے پیر کو سینئر سرکاری وکیل ستندر کور بویجہ نے اپنی دلیل میں کہا تھا کہ ملزم کے خلاف 13 ستمبر2008ء کو ہوئے سلسلے وار دھماکوں کے معاملے میں 5 ایف آئی آر درج ہیں ، اس سے اس کی مجرمانہ نیت صاف نظر آتی ہے۔جج اور گھناؤنے معاملوں کاوہ ملزز ہے جس میں بہت سے لوگوں کی موت ہوگئی تھی ان کی مانگ تھی کہ عدالت سزا دیتے وقت یہ بھی خیال رکھے کہ انسپکٹر شرما کے قتل سے اس کے خاندان کو کتنا درد اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں(بچن سنگھ اور ماگھی سنگھ) کا حوالہ دیتے ہوئے سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ان معاملوں کی طرح ہی اس نے بھی سماج کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ پھانسی کی سزا دینے کی مانگ کرتے ہوئے کہاگیا کہ شہزاد کا جرم سنگین ہے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے شہزاد کے وکیل ستیش بروا نے سزا میں نرم رویہ برتنے کی مانگ کرتے ہوئے دلیل دی تھی کہ یہ کسی شاطر معاملوں کے زمروں میں نہیں آتا کیونکہ پورا واقعہ اچانک ہوا ہے اور منظم نہیں تھا۔ واقعہ کے وقت شہزاد صرف 20 سال کا تھا اور پڑھائی کررہا تھا۔ وہ نوجوان ہے اس کا جرم سنگین جرائم کے زمرے میں نہیںآتا۔ جج شاستری نے پولیس کے شہزاد کو سزائے موت دینے کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے کہا یہ معاملہ ایک سنگین جرم کے دائرے میں نہیں تھا کیونکہ اس معاملے کے حالات اتنے پیچیدہ نہیں ہیں۔ جسٹس نے کہا اس معاملے کے حقائق اور قصوروار سزائے موت کے زمرے میں نہیں آتا اور اس لئے اس کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے کہا بٹلہ ہاؤس کے فلیٹ نمبر 108lL18 میں ہوا واقعہ منظم نہیں تھا اور حالات بننے پر یہ اچانک سے ہوگیا۔ جج نے اپنے حکم میں کہا کہ پولیس ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ ہر حالت میں ہم پولیس پر بھروسہ کرتے ہیں اور جب ہم سوتے ہیں پولیس جاگتی ہے۔ جہاں تک شہزاد کے قصوروار ہونے کا معاملہ ہے جج شاستری نے بڑی سنجیدگی سے اس سوال پر فیصلہ کیا اور اپنے فیصلے میں عدالت میں کہا کہ گواہ ڈاکٹر سنجیو لال وانی اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیادپرصاف ہے کہ انسپکٹر چندر موہن شرما کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔ ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں کہا ان کی موت حملے کے دوران گولی لگنے سے ہی ہوئی ہے اور پولیس یہ بھی کہہ رہی ہے گولی جس ہتھیار سے چلی وہ شہزاد کے ہی پاس تھا۔ حالانکہ پولیس اس ہتھیار کو سامنے نہیں لا پائی لیکن اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شہزاد اس کے لئے ذمہ دار نہیں ہے۔بچاؤ فریق کی دلیل تھی شہزاد اس فلیٹ میں موجود نہیں تھا لیکن پولیس نے عدالت کے سامنے جو ثبوت رکھے اس کے مطابق قصوروار کا L18 فلیٹ سے ضبط کیا گیا پاسپورٹ اس کا ثبوت ہے کے شہزاد وہاں تھا ورنہ کسی کا پاسپورٹ وہاں کیسے آجائے گا۔ اسی طرح شہزاد کے نام سے ریلوے ریزرویشن کا ایک ٹکٹ بھی فلیٹ سے ملا تھا۔ کیا اس طرح کے ثبوت کو عام کہا جاسکتا ہے۔ عدالت نے کہا یہ ایسے ثبوت ہیں جو اس کے خلاف جاتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ انکاؤنٹر کے وقت کوئی آزاد گواہ یا چشم دید نہیں تھا اس پر پولیس نے کہا کہ اس علاقے میں ایک ہی مذہب کے زیادہ تر لوگ رہتے ہیں اگر لوگوں کو بتایا جاتا تو اس علاقے میں کشیدگی پیدا ہوسکتی تھی۔ اس پر جج صاحب نے کہا کہ کوئی بھی مذہب مجرم کو سرپرستی دینے کی بات نہیں کرتا۔ اس طرح کی سوچ صحیح نہیں ہے۔ پھر بھی پولیس ٹیم پرحملہ جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ جسٹس کے مطابق شہزاد ہتھیار ایکٹ کے تحت قصوروار اس لئے ٹھہرایاگیا کیونکہ انکاؤنٹر کے دوران اسکے پاس ہتھیار تھا۔ حالانکہ عدالت نے کہا کہ اس نے اس ہتھیار کو ضائع کردیا لہٰذا ثبوت مٹانے کا قصوروار پایا گیا ہے۔ اس معاملے میں پولیس نے پیش کئے گئے ثبوت کے دوران تین دلیلیں بھی دیں۔ یہ اپنے آپ میں اس طرح کا اہم ثبوت تھا جن میں ٹیلی فون کال،6 چشم دید، 70 گواہ ۔شہزاد اور جنید فلیٹ سے کود کر بھاگے تھے۔ سرکاری کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنا ، ثبوت ضائع کرنا یہ تھی پولیس کی اہم دلیلیں۔ اس فیصلے سے شہزاد کے رشتے دار خوش نہیں ہیں۔ وہ اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔جامعہ ٹیچرز سالیڈریٹری ایسوسی ایشن کے ایک ممبر منیشا سیٹھی نے اسے ایکطرفہ بتایا۔ان کا کہنا ہے کہ عدالت کا فیصلہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیادپر نہیں ہے۔ پولیس نے ایکطرفہ ثبوت پیش کئے ہیں جس کی بنیادپر فیصلہ کیا گیا ہے۔ بٹلہ ہاؤس کے ایک باشندے نے اسے فرضی مڈ بھیڑ قراردیتے ہوئے کہا کہ پولیس اور میڈیا اشو کو بے وجہ طول دے رہا ہے۔ پولیس جنتا کو دکھانے کے لئے کسی کا الزام کسی کے سر منڈ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا اس طرح کے فیصلوں سے راجدھانی میں مسلمان اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کررہے ہیں۔ وہیں دوسری طرف شہزاد کو پھانسی نہ ملنے سے انسپکٹر موہن چند شرما کی بیوی مایا شرما مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا کہنا کے نچلی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف دہلی پولیس کو ہائی کورٹ میں اپیل کرنی چاہئے۔ دہلی پولیس کے انسپکٹر موہن چند شرما کی جان لینے والے کے لئے پھانسی کی سزا کی مانگ کررہے ہیں۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے کمشنر ایس۔ این ۔سریواستو کا کہنا ہے ان کے پاس فیصلے کی کاپی ابھی نہیں آئی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو شہزاد کو عمر قید کی سزا کے بعد اسپیشل سیل کے افسران کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں طے ہوا آگے کی حکمت عملی کاپی آنے کے بعد طے ہوگی۔ حکام کا کہنا ہے کہ بٹلہ ہاؤس مڈبھیڑ آتنک واد کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی تھی ۔ ان کے ہونہار انسپکٹر کے ہاتھ اگر آتنکی عتیق کا موبائل نہ لگا ہوتا تو دیش بھر میں وہ موت برپا کررہے ہوتے۔ انڈین مجاہدین تنظیم کا خلاصہ نہ ہوتا۔ بٹلہ ہاؤس مڈ بھیڑکے بعد پتہ چلا کہ دہلی ہی نہیں یوپی، راجستھان، گجرات، آندھرا پردیش میں بھی آئی ایم کے نیٹ ورک ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟