بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر : دلائل اور انصاف پر مبنی فیصلہ

سرخیوں میں چھائے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی اصلیت سامنے آگئی ہے۔ ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج راجندر کمار شاستری نے اس مقدمے کو لیکر ایک ایسا اہم فیصلہ دیا ہے جس کا تذکرہ بہت دنوں تک چھایا رہے گا۔ ایک مشکل اور سیاسی اغرازپر مبنی مقدمے میں کسی طرح کا فیصلہ دینا آسان کام نہیں تھالیکن ماننا پڑے گا جج محترم نے ایک متوازن اور انصاف پر مبنی فیصلہ سونا ہے۔ اس پر سیاست تو ہوگی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کے حقائق اور غیر جانبداری پر کوئی تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ سب سے پہلے آپ کو بتائیں کے بٹلہ ہاؤس مڈبھیڑکیاتھی؟13 ستمبر 2008ء کو دہلی کے قرولباغ،کناٹ پلیس، انڈیا گیٹ، گریٹر کیلاش میں ایک ساتھ سلسلہ وار دھماکے ہوئے تھے۔ ان دھماکوں میں 26 لوگ مارے گئے تھے جبکہ13 زخمی ہوئے تھے۔ دہلی پولیس نے جانچ میں پایا کے بمدھماکے ہو دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین نے انجام دیاتھا۔ واردات کے 6 دن بعد19 ستمبر کو دہلی پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ انڈین مجاہدین کے 5 آتنک وادی بٹلہ ہاؤس میں واقعہ مکان نمبرایل۔18 میں روپوش ہیں۔ اس اطلاع کی بنیادپر انسپکٹر موہن چند شرما کی رہنمائی میں 7 نفری ٹیم جب چھاپہ مارنے پہنچی تومکان کی پہلی منزل پر بنے فلیٹ میں موجود 5 آتنکیوں نے پولیس ملازمین کو گولیاں چلانی شروع کردیں۔ انکاؤنٹر میں انسپکٹر موہن چند شرما سمیت دو پولیس والے شدید زخمی ہو گئے تھے۔ جوابی فائرننگ میں پولیس نے دو آتنک وادی عتیق امین اور محمد ساجد کو مار گرایاتھا جبکہ دو آتنکی محمدسیف اور ذیشان کو گرفتار کیاگیا۔ لیکن ایک دہشت گرد بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ زخمی موہن چندشرما کو ہولی فیملی لے جایاگیا یہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ پولیس کے منظم انکاؤنٹر کے بعد شہزاد اس فلیٹ سے بچ کر بھاگ گیا تھا۔ پولیس کو شہزاد کا پتہ ایک آتنکی محمد سیف سے چلا اور اسے گرفتار کر لیاگیا ۔ اس معاملے میں ایک اور ملزم جنید کو پکڑا نہیں جاسکا ۔ اسے بھگوڑا ملزم اعلان کردیا گیا۔ شہزاد کو یکم جنوری 2010ء کو اترپردیش کے اعظم گڑھ ضلع سے گرفتار کیا گیا اور یہیں سے شروع ہوئی اس مقدمے میں سیاست۔ کیونکہ معاملہ اقلیتی فرقے سے جڑا تھا ایک بار پھر اعظم گڑھ کا نام اس معاملے سے جڑ گیا اس لئے دگوجے سنگھ سمیت کانگریسی لیڈروں نے ریلیوں میں اس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہاں تک کہہ دیا انسپکٹر موہن چند شرما کو ان کے ساتھیوں نے ہی مار ڈالا ہے۔ چناوی ریلیوں میں اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے ایک موجودہ وزیر سلمان خورشید نے تو ایک ریلی میں یہا ں تک کہا کہ اس فرضی مڈ بھیڑ کی تصویریں دیکھ کر سونیا گاندھی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ محترم جج شاستری نے اپنے فیصلے میں ایک طرح سے بغیر کہے اس پر سیاست کرنے والوں کو کرارا جواب دیا ہے۔ کانگریس جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ نے 2009ء کے لوک سبھا اور 2012ء کے اترپردیش اسمبلی چناؤ سے پہلے مڈ بھیڑ کو فرضی قراردیا تھا۔ سپا کے سابق لیڈر امر سنگھ اور پارٹی کے موجودہ جنرل سکریٹری رام گوپال یادو کے ساتھ بٹلہ ہاؤس گئے ۔ انہوں نے مڈ بھیڑ کو بھی فرضی بتایا۔ بٹلہ ہاؤس پر پارٹی لیڈروں کی سیاست سے کانگریس کنارہ تو کرتی ہے کبھی بھی اس کے منہ پر تالہ لگانے کی کوشش نہیں کرتی۔ دگوجے سنگھ تو فیصلے کے بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ یو پی اے سرکار کے وزیر خزانہ پی چدمبرم نے فیصلے کے بعد کہا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر فرضی نہیں تھا۔ بطور وزیرداخلہ اس معاملے کا جائزہ لینے والے چدمبرم کے مطابق انکاؤنٹر کی اصلیت پر سوال نہیں کھڑا کیا جاسکتا۔ جج شاستری نے صاف کہا کہ انکاؤنٹر فرضی نہیں تھا۔ سیریل بلاسٹ کے بعد19 ستمبر2008ء کو بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں جج صاحب نے صحیح بتایا ہے کہ قریب70 گواہوں اور ثبوتوں کو دیکھتے ہوئے کورٹ نے انڈین مجاہدین کے آتنکی شہزاد عرف پپو کو انسپکٹر موہن چندر شرما کے قتل کا قصوروار مانا ہے۔ اب29 جولائی کو سزا پر بحث ہوگی۔ عدالت نے آئی پی سی کی دفعہ302,307 اور 186,120B کے تحت قصوروار قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہزاد نے گولی مار کر انسپکٹر موہن شرما کو مارا ہے۔ یہی نہیں اس نے باقی پولیس والوں پر بھی گولیاں چلائیں اور ہیڈ کانسٹیبل بلونت سنگھ کے بھی قتل کی کوشش کی تھی۔ شہزاد کو قصوروارمانتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ انڈین مجاہدین کا ممبر تھا یا نہیں اس سے معاملے پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اس معاملے کا قصوروار ہے اور یہ ہی حقیقت ہے۔ جج صاحب نے کہا کہ عدالت کے سامنے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ وہ آئی ایم کا ممبر ہے۔ جج صاحب نے دہلی پولیس کو بھی نہیں بخشا اور فیصلے میں عدالت نے کہا انسپکٹر موہن چند شرما نے چھاپہ مارنے کے وقت بلٹ پروف جیکٹ کیوں نہیں پہن رکھی تھی؟ یہ حیرت کا موضوع ہے ۔ انہیں اس کا انجام پتہ تھا پھر ایسی کیا مجبوری تھی کہ انہوں نے سکیورٹی جیکٹ نہیں پہنی۔ یہ کچھ اور نہیں بلکہ غیر پیشہ ور رویہ تھا۔ جج شاستری نے کہا کہ پولیس کے پاس پہلے سے اطلاع تھی کہ ایک خاص جگہ پر کچھ آتنکی چھپے ہوئے ہیں ایسے میں وہاں جانے سے پہلے اسکیم بنائی گئی ہوگی۔ اور یہ کیسی اسکیم بنی کے 7 پولیس کی ٹیم میں 2 کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ حالانکہ عدالت نے کہا پولیس ہتھیار کے ساتھ جائے یا خالی ہاتھ جائے لوگوں کو انہیں مدد کرنی چاہئے لیکن یہاں پر گولی چلا دی گئی۔ اسے کبھی بھی صحیح نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ایسے مقبول سیاسی بنائے گئے کیس میں ایسا کوئی فیصلہ دینا جو انصاف اور دلائل پر مبنی ہو، سبھی فریقین کو قبول ہو، یہ آسان کام نہیں تھا لیکن جج شاستری کے فیصلے سے جہاں دہلی پولیس نے راحت کی سانس لی وہیں شہزادکے گاؤں والی دکھی تو نظر آئے لیکن کسی نے فیصلے پر کوئی رائے زنی نہیں کی۔ گاؤں والوں نے عام طور پر کورٹ پر بھروسہ جتایا۔ جہاں تک مسلم فرقے کی رائے کی بات ہے اس میں بھی ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔ جامعہ علاقے خاص طور سے بٹلہ ہاؤس کے آس پاس لوگ صبح سے ہی ٹی وی سے چپکے رہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ٹیچر اور مذہبی پیشواؤں نے جہاں اس فیصلے میں دہلی پولیس کی من گھڑت دلیل کو خیالی قراردیا وہیں کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے کیونکہ کسی شخص کو اگر نچلی عدالت سے انصاف نہیں ملا تو اوپری عدالتوں میں جا سکتا ہے۔ کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پھر دہشت گردی اور اعظم گڑھ کانام جڑ گیا ہے۔ ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج راجندرکمار شاستری میری رائے میں تو مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اتنے مشکل کیس میں انہوں نے سبھی سے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!