کرناٹک میں کانگریس جیتی نہیں بھارتیہ جنتا پارٹی ہاری ہے
7 سال کے بنواس کے بعد اپنے پرانے جنوبی گڑھ میں کانگریس کی واپسی ہوئی ہے۔ قومی سطح پر گھوٹالوں کے الزامات سے گھری کانگریس نے24 ممبری اسمبلی کے چناؤ میں شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 121 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے جو اکثریت کے نمبر 113 سے آگے بڑھ گئی ہے۔وہیں مقامی سطح پر کرپشن کے اشوسے گھری اور اپنے پانچ سال کے عہد میں تین وزراء اعلی بدلنے والی بھاجپا کو محض30 سیٹوں پر جیت ملی ہے۔ 2008ء کے چناؤ میں پارٹی کو110 سیٹیں ملی تھیں۔ اسی طرح جنتا دل ایس کی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری نہیں دکھائی دی،اسے بھی40 سیٹیں ملیں۔ گذشتہ چناؤمیں اسے28 سیٹیں ملیں تھی۔ ادھر سابق وزیر اعلی بی ایس یدی یروپا کی پارٹی کے جی پی کو کل 6 سیٹیں ملیں لیکن اس کا کارنامہ یہ ضروررہا کے اس نے کرناٹک میں بھاجپا کی پہلی سرکار کا بنٹا دھار کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہماری رائے میں کانگریس جیتی نہیں بلکہ بھاجپا ہاری ہے۔ ساؤتھ انڈیا میں بھاجپا کا ایک واحد قلعہ اگر ڈھے گیا تو اس کے لئے اس کی اپنی کارگذاری ہی ذمہ دار ہے۔اچھا انتظامیہ اور بہتر ساکھ کا رونا رونے والی بھاجپا کی کرناٹک سرکار کرپشن اور بدانتظامی کی علامت بن گئی تھی۔ کرناٹک چناؤ کے نتیجوں کو دیکھنے کے بعد جمہوریت میں آستھا بڑھنا فطری ہی ہے۔ اس کے پیچھے کہیں بی جے پی کی کراری ہار یا 14 برسوں بعد کانگریس کا اکثریت سے واپسی کرنا ذمہ دار نہیں ہے۔ کرناٹک اس چناؤ میں یقینی طور پر کرپشن اور بدانتظامی ،عدم استحکام اور بھائی بھتیجہ واد کے ساتھ پیسے اور طاقت کا بھی دبدبہ رہا۔ ذہنی طور پر ووٹر اپنے مقصد کے تئیں اتنے چوکس رہے کہ لیانگت بکا لنگا جیسی برادری کے تجزیئے بھی نتیجے کے رخ کو بدلنے میں ناکام رہے۔ گدی سنبھالنے اور جشن مناتی کانگریس پارٹی کو اپنی طاقت کی غلط فہمی میں اترانے کی جگہ ان نتیجوں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ اگر وہ ریاست میں چوست انتظامیہ اور ڈھانچہ بندی کے فروغ کے ساتھ روزگار کے موقعے تلاش کرنے میں کوتاہی برتے گی تو اس کا حشر دہلی کے قومی شاہراہ تک نہیں بلکہ بی جے پی یا بی ڈی ایس کی طرح گمنامی کی کھائی میں گرنا ہوگا۔ کرناٹک کے نتیجوں نے پھر ثابت کردیا ہے کرپٹ سرکاریں چاہے کسی بھی پارٹی کی ہوں، لوگ انہیں اکھاڑنے سے گریز نہیں کرتے۔ ہماچل میں دھومل ، اتراکھنڈ میں نشنک اور کھنڈوری اور اترپردیش میں مایاوتی کی سرکاروں کو اکھاڑ پھینک کر ووٹروں نے اپنی سیاسی بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ کرناٹک کے نتیجوں نے ان تینوں ریاستوں کی طرح متبادل کے طور پر جو سرکار چنی ہے اسے واضح اکثریت دی ہے یعنی اتحادی کی سرکاروں کے دن اب مرکز میں ابھی بھلے ہی لدتے نظر نہ آرہے ہوں لیکن ریاستوں میں ان کا زوال شروع ہوگیا ہے۔ پارٹی لیڈر شپ نے چناؤ اعلان کے ساتھ ہی یہ مان لیا تھا کہ تنہا بھاجپا آئی سی یو میں جا چکی ہے۔ بھاجپا میں ایسا نظریہ رکھنے والوں کی کمی نہیں جو اب یہ کہتے ہیں کہ یدی یروپا کو پارٹی سے نہ ہٹاتے تو شاید یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا لیکن پارٹی کے بڑے نیتا لال کرشن اڈوانی کی ہدایت پر اقتدار کی پرواہ نہ کی گئی۔ ایمانداری اور اخلاقی اقدار کی پرواہ کی گئی۔ ان کا اب کہنا ہے کرناٹک میں کانگریس کی یہ جیت ووٹوں کے بٹوارے کی وجہ سے ہوئی۔ دیش بھر میں کانگریس کا صفایا طے ہے۔ اس چناؤ نتیجے کے بعد کانگریس بہت گد گد ہے۔ اس کے نیتا یہ مان کر چل رہے ہیں کہ اس جیت نے پارٹی کو اس پر لگے کرپشن کے الزامات سے کلین چٹ دے دی ہے۔ ان کا یہ سوچنا بہت بڑی غلط فہمی ہوگی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اگر ہم پچھلے چناؤ نتائج پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے لوک سبھا چناؤ میں شمالی ہندوستان، جنوبی ہندوستان کی پولنگ کا پیٹنٹ الگ رہتا ہے۔ ایمرجنسی کے دوران جب پورے دیش میں کانگریس مخالف لہر چل رہی تھی تب ساؤتھ انڈیا نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ جب بوفورس اشو پر وی پی سنگھ نے کانگریس مخالف مہم چھیڑی تھی تب تھی ساؤتھ انڈیا اس پارٹی کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ اس لئے ساؤتھ انڈیا کی ایک ریاست کے نتیجوں کو اگلے سال ہونے والے عام چناؤ کے نتیجوں سے جوڑنا شاید صحیح نہ ہو۔ ان چناؤ کو نریندر مودی ، راہل گاندھی کے امتحان کے طورپرکچھ لوگ دیکھ رہے تھے۔ مودی بھاجپا کو ڈبونے سے نہیں بچا سکے تو یہ بھی صحیح ہے کہ راہل کانگریس کے اثر سے نہیں جیتی بلکہ ریاست کے لوگوں نے اس بار نگیٹو ووٹنگ کی ہے۔ انہیں بھاجپا کوہرانا تھا اور انہیں مستقل متبادل کے طور پر وہاں کانگریس نظر آئی۔ مرکز میں گھوٹالے سے گھری کرپشن کی علامت بنی یوپی اے سرکار کو بیشک ان نتائج سے تھوڑی راحت ملی ہوگی لیکن کرناٹک کا جن آدیش مرکزی سرکار کے لئے اپنے کئے کارناموں پر پانی پھیرنے کا کام نہیں کرسکتی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں