اپنے عیبوں کو چھپانے کیلئے یہ سرکار کسی بھی حد تک جاسکتی ہے

جس ڈھنگ سے سی بی آئی نے ریلوے وزیر پون کمار بنسل کے بھانجے کو گرفتار کیاہے اور ان کے ذریعے گھوٹالے کا پردہ فاش کیا ہے اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سی بی آئی آہستہ آہستہ سرکاری چنگل سے نکل رہی ہے یا یوں کہیں کہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا سپریم کورٹ کے سخت رویئے سے گھبرا گئے ہیں اور عدالت نے جو انہیں کوئلہ گھوٹالے میں ڈانٹ لگائی اس کا اثر ہونے لگا ہے یا پھر انہیںیہ ڈر ستا رہا ہے کہ کہیں اگلی تاریخ میں سپریم کورٹ ان کو ہی کٹہرے میں نہ کھڑا کردے اور سیدھی کارروائی کرڈالے؟ وجہ جو بھی ہو ریل منتری کے بھانجے کا پردہ فاش کرکے سی بی آئی نے یہ دکھانے کی کوشش ضرور کی ہے کہ وہ اب سرکار کے اشاروں پر نہیں چلتی اورمنصفانہ جانچ کرے گی۔ کوئلہ گھوٹالے پر سپریم کورٹ میں ایک اہم حلف نامہ داخل کرنے سے ایک دن پہلے سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا نے زور دیکر کہا کہ اس معاملے میں ایجنسی کی جانچ منصفانہ اور صحیح راہ پرچل رہی ہے اور کسی بھی ملزم یا مشتبہ کو بخشا نہیں جائے گا۔ اب سرکار کو اس بات کی تشویش جتائی جارہی ہے اگر سی بی آئی اپنی پر اتر آئی تو کئی دبے معاملے اٹھ سکتے ہیں۔ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا نے سپریم کورٹ میں داخل چارج شیٹ میں مانا کہ کوئلہ گھوٹالے کی جانچ رپورٹ میں قانون منتری و اٹارنی جنرل کوئلہ وزارت و پی ایم او کے حکام کے کہنے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ 9 صفحات کے حلف نامے میں سنہا نے کہا کہ رپورٹ کے مسودے قانون منتری اشونی کمار اور اٹارنی جنرل جی ای واہنوتی اور وزیر اعظم کے دفتر اور کوئلہ وزارت کی تجاویز پر ترمیم کی گئیں۔ اشونی کمار اور واہنوتی نے تمام الزاموں سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ کے مسودے میں تبدیلی کے لئے ان کی طرف سے کوئی تجویز نہیں آئی ہے۔ واہنوتی نے تو یہاں تک دعوی کیا تھا کہ انہوں نے پروگریس رپورٹ کا مسودہ تک نہیں دیکھا۔سنہا نے ان دعوؤں کو جھٹلاتے ہوئے مانا کہ جانچ کی پروگریس رپورٹ کو لیکر تین ملاقاتیں ہوئیں تھیں اور وائٹ پیپر میں سی بی آئی چیف نے یہ بھی کہا کہ اگر انجانے میں ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کے لئے وہ بغیر شرط معافی مانگتے ہیں۔ جانچ ایماندار افسر کررہے ہیں جو پوری آزادی کے ساتھ کورٹ کی ہدایت کی مطابق چلتی رہے گی۔ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا کے حلف نامے کے بعد سرکار کوا پنی صفائی میں کچھ کہنے کو باقی نہیں رہ گیا ہے لیکن یہ طے ہے کہ وہ اب بھی ایسا کرے گی ۔وہ اپنی کارروائیوں کو ہر ممکن طریقے سے جائز ٹھہرانے کی کوشش کرے گی۔ اس سے اس کی جگ ہنسائی کے علاوہ اور کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ کسی بھی سرکار کے لئے اس سے زیادہ بے عزتی کیا ہوسکتی ہے کہ سی بی آئی سپریم کورٹ کے سامنے حلف نامہ داخل کر اس کی پول کھولے؟ اس رپورٹ کو بدلوانے میں جس طرح اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اس سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے سرکار نے ہر حال میں سچائی چھپانے کیلئے کمر کس لی تھی۔ اور یہ بیحد شرمناک اور قانونی حکمرانی سے کئے جانے والا کھلا کھلواڑ ہے۔ ایسی سرکار عزت کی مستحق نہیں ہوسکتی جو چوری چھپے کسی جانچ رپورٹ میں چھیڑ چھاڑ کرے۔ اب سوال محض یہ نہیں کہ قانون منتری کا کیا ہوگا بلکہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کا افسر کس کے اشارے پر جانچ رپورٹ میں ردوبدل کررہا تھا؟ کیا پی ایم او بغیر پی ایم کی مرضی کے اس طرح کے کام کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کے حلف نامے سے صرف یہ ہی نہیں ثابت ہوتا کے سرکار سچ گلا گھونٹنے کے لئے کس حد تک جاسکتی ہے بلکہ یہ بھی صاف ہورہا ہے کہ حکمرانی کی اعلی سطح پرکس حد تک گراوٹ آئی ہے۔ اب یہ کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی کہ مرکز ی موجودہ سرکار گھوٹالے کی علامت بن گئی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ گھوٹالوں کے تار جیسے جیسے اعلی عہدوں پر قابض اشخاص اور ان کے دفتروں اور ان کے سگے رشتے داروں سے جڑتے نظر آرہے ہیں ویسے ویسے سرکار انہیں لیکر بے پرواہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ابھی ریل منتری پون بنسل کے کردار کی چھان بین قاعدے سے شروع بھی نہیں ہوپائی کہ رنجیت سنہا نے اپنے حلف نامے سے یہ نیا بم پھوڑ دیا ہے۔ ان حقائق کے عام ہونے کے بعد ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ موجودہ سرکار اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ وزیر اور افسروں کو یہ ہمت کرنے میں تب بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی جب کوئلہ گھوٹالے کی جانچ کی نگرانی سپریم کورٹ کررہی ہے۔ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ جس دیش میں ایک عام آدمی کے پیر تھانے تک جانے سے کانپتے ہیں وہیں بڑے عہدوں پر بیٹھے اشخاص میں اتنی ہمت کہاں سے آتی ہے؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں ان میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ ہمارے کالے کارنامے اول تو سامنے آئیں گی ہی نہیں اگر آ بھی گئے تو کیا ہو، بہت ہوا تو سی بی آئی جانچ کرلے گی اور وہ سی بی آئی جس کی رپورٹ کیسے جوڑی توڑی جاتی ہے وہ اس معاملے میں عام ہوچکی ہے۔رنجیت سنہا دعوی کررہے ہیں کہ تمام تبدیلیوں کے باوجود کوئلہ گھوٹالے کی جانچ رپورٹ میں یوں ہی تبدیلی نہیں ہوئی ہے لیکن اس پر آسانی سے یقین نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے بھی ایسا ہوا ہے یا نہیں یہ دیکھنے کا کام اب سپریم کورٹ کا ہے۔ سپریم کورٹ کو بہت سے مسئلوں پر فیصلہ لینا ہوگا کہ کیا سرکار کو جانچ ایجنسی کی رپورٹ بدلنے کا اختیار ہے؟ کیا اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگ اقتدار چلانے کے نام پر کچھ بھی کرسکتے ہیں؟ قانون منتری اور دونوں وزارتوں کے افسر پی ایم او کے افسر ،عدالتی افسر ان سب پر سپریم کورٹ کیا کوئی براہ راست تبصرہ کرے گی ۔دیش دیکھ رہا ہے کہ اگر سرکار کو طریقے کی دھاندلے بازی سے کوئی روک سکتا ہے تو وہ جانتا ہے سپریم کورٹ۔ جنتا تو چناؤ آنے پر ہی جواب دے گی فی الحال معاملہ تو عدالت کو ہی طے کرنا ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟