کون تھا سربجیت اس کی کہانی اسی کی زبانی
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں آئی ایس آئی کے ذریعے قتل کی سازش رچی تھی اور بدنصیب شکار سربجیت سنگھ کو آخر کار وطن کی مٹی نصیب ہوئی۔ زندہ تو وہ نہیں لوٹ سکا لیکن تابوت میں ضرور لوٹا۔ سربجیت سنگھ کو پاکستان نے اذیتیں دیکر باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مارا۔ بھارت میں ہوئے سربجیت کے پوسٹ مارٹم سے پتہ لگا کہ قاتلوں کا ارادہ سربجیت سنگھ کو موت کی نیند سلانا تھا۔ امرتسر کے قریب ہسپتال میں 6 ڈاکٹروں کی ٹیم نے پوسٹ مارٹم کیا جس میں انکشاف ہوا اس کے جسم میں گوردہ اور دل نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں نکال لی گئی ہوں گی۔ سربجیت پر حملہ26 تاریخ کو نہیں بلکہ20 دن پہلے ہوا تھا۔ سربجیت کے جسم پر کئی زخموں کے نشان پائے گئے جو اشارہ کرتے ہیں جیل میں اس پر حملہ کرنے والے لوگ یقینی طور پر دو سے زیادہ تھے۔ اس کے جسم کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایک اکیلا شخص اس جیسے ہٹے کٹے شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یقینی طور پر زیادہ لوگوں نے اس پر حملہ کیا۔ ڈاکٹر نے بتایا سربجیت کے جسم پر زخم 6-7 دن پرانے تھے۔ سربجیت کی کھوپڑی دو حصوں میں ٹوٹی ہوئی تھی۔ اس کے جبڑے کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ سربجیت کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کراچی کی سینٹرل جیل میں سال1986-87 کے درمیان صدر زرداری کے ساتھ جیل میں رہے سابق ہندوستانی جاسوس محبوب الٰہی نے سربجیت پر ہوئے حملے کو آئی ایس آئی کی سازش قراردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس میں جیل حکام کی ملی بھگت رہی۔ حالانکہ حملہ کچھ دوسرے لوگوں نے کیا لیکن دو قیدیوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ الٰہی کا دعوی ہے کہ سال1977 میں جیل اور آئی ایس آئی کے حکام نے انہیں اس بات کی پوری چھوٹ دے رکھی تھی کہ ایک پاک نیتا کا قتل کردیا جائے جو اس وقت لاہور لکھپت جیل میں تھا۔ دیگر قیدیوں کے ذریعے سربجیت پر حملہ ناممکن ہے۔ میں خود پاک جیل میں چار سال رہ چکا ہوں۔میں اچھی طرح سے جانتا ہوں پاکستانی قیدی بھارتی یا بنگلہ دیشی قیدیوں پر کبھی حملہ نہیں کرتے۔ وہ لوگ الگ سیل میں رکھے جاتے ہیں۔ رہائی کی امید میں دو دہائی سے زیادہ وقت تک پاکستانی جیل میں بند رہے سربجیت کی کہانی تو ختم ہوگئی۔ ان پر جو گذری ان کی زبانی نہیں سن سکتے بس محسوس ہی کرسکتے ہیں مگر کارگل کی لڑائی کے بعد پاک جیل میں پانچ سال تک قید رہے ہندوستانی فوجی عارف کی آپ بیتی سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میرٹھ کے گاؤں منڈالی کا رہنے والا عارف فی الحال پنے میں تعینات ہے۔ عارف پر گذری اذیتوں کے بارے میں اس کے بھائی حامد نے بتایا کے پاکستانی جیل میں سب سے آخر میں ہندوستانی قیدیوں کو کھانا دیا جاتا ہے۔ دال کا پانی ،چاول میں کنکر اور کچھ کہنے پر گالیاں اورپٹائی۔ بہتر تھا کہ بھوکے سوجاؤ۔ بیمار ہوگئے تو ہوجاؤ، ہوا نہیں ملے گی۔ پاکستانی قیدی اس کی چادر چھین لیتے تھے تو کبھی اس کے کمرے کی بتی گل کردیتے تھے۔ کارگل جنگ کے دوران کشمیر کے درراس سیکٹر سے عارف پاکستانی سرحد میں چلا گیا تھا اور پاک فوجیوں نے اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ سربجیت کا ایسا اکیلا معاملہ نہیں جب پاکستانیوں نے اپنی بربریت اور ناقابل قبول برتاؤ کیا ہو۔ کارگل کی لڑائی کے دوران کیپٹن سورو کالیا کو پاکستانی فوجوں نے 15 مئی1994 کو پانچ جوانوں کے ساتھ قیدی بنا لیا تھا۔ 26 دنوں تک پاکستانی فوجیوں نے انہیں زبردست اذیتیں دیں ۔ آنکھیں نکال لی گئی تھیں اور ذاتی اعضا کو بھی کاٹ دیا تھا۔8 جنوری 2013 ء کو پاکستانی فوج کی بارڈر ایکشن ٹیم نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی۔ گھنے کہرے کا فائدہ اٹھا کر پاکستانی فوج کے جوان ہندوستانی سرحد میں600 میٹر تک اندر گھس آئے۔ پاکستانی فوجیوں نے کنٹرول لائن پر تعینات ہندوستانی فوج پر بھی فائرننگ کی۔ اس میں فوج کا ایک جوان شہید ہوگیا۔ پاکستانی فوجیوں نے بربریت دکھاتے ہوئے دونوں ہندوستانی فوجیوں لانس نائک ہیمراج اور سدھاکر سنگھ کی لاشوں کو تہس نہس کردیا۔ ہیمراج کا سر کاٹ کر پاکستانی فوجی اپنے ساتھ لے گئے۔ چمیل سنگھ کو 15 جنوری 2013ء میں کوٹ لکھپت جیل میں جیل اسٹاف نے نل سے پانی بھرنے پر اتنا مارا کے دو دن بعد اسی جناح اسپتال میں جس میں سربجیت کو لایا گیا تھا اس کی موت ہوگئی۔ چمیل سنگھ کو جولائی2008ء میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سربجیت کون تھے اس پر کئی طرح کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ پیش ہے پاکستان کی کوٹ لکھپت جیل سے لکھے گئے خط میں سربجیت سنگھ کی کہانی اس زبانی۔ پوری دنیا کو پتہ ہے کے میں سربجیت سنگھ پنجاب( بھارت) کا رہنے والا ہوں ۔ آج پاکستان کے شہر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں دن گذار رہا ہوں۔ میرا مقصد قارئین کو یہ بتانا ہے کے منجیت سنگھ نہیں سربجیت سنگھ ہوں۔ میں غلطی سے 29-30 اگست کی رات پاک سرحد میں داخل ہوگیا تھا۔ مجھے منجیت سنگھ بنا کر پیش کیا گیا۔ عدالت نے اس بات پر قطعی غور نہیں کیا کہ ملزم کو صفائی دینے کا موقعہ دیا جائے۔ لاہور بم دھماکے کے معاملے میں مجھے سزائے موت کا فیصلہ سنادیا۔ جس دن مجھے پکڑا گیا اسی دن مجھے ایف آئی یو کے حوالے کردیا گیا۔ اس ایجنسی کا کام بھولے بھالے ہندوستانیوں کو گمراہ کرنا اور ہندوستانی پنجاب میں دہشت گردی کو پھیلانا ہے۔ مجھے امیدتھی کہ غلطی سے سرحد کی خلاف ورزی کرچکا ہوں مجھے جلدہی چھوڑدیا جائے گا۔ لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ جب ایک جولائی 1991ء میں کورٹ میں پیش ہوا تو میں نے جج سے کہا میں منجیت سنگھ نہیں ہوں ،میرا نام سربجیت سنگھ ہے۔ جج نے مجھے یہ کہہ کر ٹال دیا میں پورا انصاف کروں گا لیکن ہرتاریخ پر پولیس نے گواہوں کے طور پر اپنے مخبروں کو پیش کیا۔ کئی گواہوں نے تو یہ کہہ دیا ہمیں پولیس مجبور کررہی ہے کے تم گواہ کو لاہور دھماکے کے زخمیوں نے بھی صاف کہا کہ ہمیں نہیں پتہ کون دھماکے کررہا ہے۔
جیل میں کچھ خط سربجیت نے دوسرے لوگوں کو بھی لکھے تھے جس سے اس کی بے گناہی اور نا انصافی کا پتہ چلتا ہے۔ سربجیت نے یہ خط اپنی بہن دلبیر کور ، کانگریس صدر سونیاگاندھی، بھاجپا لیڈر لال کرشن اڈوانی کو بھی لکھے تھے۔ سربجیت نے ایک خط وزیر اعظم کو بھی لکھا تھا جس میں رہائی کے لئے پاکستان سرکار پر دباؤ بنانے کی اپیل کی تھی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں کی نہ ہی کوئی شناختی پریڈ کرائی گئی تھی اور نہ ہی سربجیت کے پاس سے کوئی برآمدگی ہوئی تھی۔ یہ خط جس کا میں نے ذکر کیا ہے وہ ان کے وکیل اویس شیخ کی کتاب ’سربجیت سنگھ کی داستان‘ سے لیا گیا ہے۔ سربجیت سنگھ کی باتوں سے پتہ چل گیا کہ بھارت سرکار کو اتنا تو غور کرنا چاہئے کہ وہ کھلے طور پر اعلان کرے کہ سربجیت سنگھ بھارتیہ خفیہ کا ایجنٹ نہیں تھا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں