چین کو منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمت اور قوت ارادی ضروری
کچھ دن پہلے ہی چین کی نئی حکومت نے ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی سمت میں پانچ نکاتی فارمولے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اور چین کو باہمی رشتوں کو آگے بڑھانے کے لئے ڈپلومیٹک کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ چین کی اس پہل کا ہندوستان نے خیر مقدم کیا تھا اور امید کی تھی کے برسوں سے لٹکے مسئلے اب مل بیٹھ کر سلجھائے جائیں گے لیکن جیسا ہمیشہ ہوتا آرہا ہے چین کے قول اور فعل میں کافی فرق ہے۔ بھارت کوزیادہ دن انتظار نہیں کرنا پڑا اور چین نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا۔ لداخ کے دولت بیگ اولڈی سیکٹر میں چین بھارت کی سرحد میں19 کلو میٹر تک گھس آیاتھااور اس نے نہ صرف اپنے تمبو گاڑھ لئے تھے ۔ اب تازہ اطلاعات ملی ہیں کہ چین نے اپنے فوجی واپس بلا لئے ہیں۔ذرائع کے مطابق بھارت۔ تبت پولیس کے جوانوں کے ذریعے اپنی مستعدی دکھانے کی وجہ سے چینی فوجیوں نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے ہیں۔خیال رہے چینی فوجیوں نے جو ٹینٹ لگائے وہ کنٹرول لائن کے 19 کلو میٹر دوری پر تھے۔ ایک انگریزی اخبار کے مطابق چین کے ذریعے ہندوستان کی سرحد میں قبضہ کرنے کی وجہ بھارت 750 مربع کلو میٹر کے خطے سے اپنی پکڑ گنوا سکتا ہے کیونکہ ایسا نہیں لگ رہاتھا کہ چین اب شاید ہی واپس جائے۔ ذرائع کی مانیں چین کی فوجوں کے واپس ہٹنے کے پیچھے اس ماہ ہونے والے چینی صدر لی چنگ فنگ کے دورہ ہند کے پیش نظر یہ پیشرفت ہوئی ہے۔چین کے ذریعے کنٹرول لائن پر قبضہ کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا تھا۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 2010 سے لیکر2011 ء کے درمیان وہ 750 سے زیادہ بار قبضہ کرچکا ہے۔اس مرتبہ چین نے نہ صرف گھس پیٹھ کی بلکہ ٹکراؤ کا بھی راستہ اپنایاتھا۔ تعجب یہ ہے کہ اس کے ذریعے سرحد پر ایسے وقت میں حرکت کی گئی جب اس کے وزیراعظم کو بھارت آنا ہے اور ہندوستانی وزیر خارجہ کا دورۂ چین بھی طے ہے۔ ایسے میں موجودہ کشیدگی اور لی چنگ فنگ کے دورے کو آپس میں جوڑ کر دیکھا جانا غلط نہ ہوگا۔ یہ پرکھا ہوا سچ ہے کہ جب بھی چین کی بڑی لیڈر شپ بھارت آتی ہے یا ہندوستانی لیڈرشپ چین جاتی ہے تو اس سے پہلے چین بھارت کو دباؤ میں لینے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے اپناتا ہے۔ دراصل چین کو فکر ہے کہیں بھارت مذاکرات کے دوران تبت مسئلے نہ اچھال دے۔ برہمپتر کا مسئلہ نہ چھیڑدے۔ چین کو عالمی پس منظر میں بھارت کے بڑھتے قدم کی بھی تشویش ستا رہی ہے۔ سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ بھارت چین کو کیا جواب دے گا؟ چین کو یہ بھی ناگوار گذر رہا ہے کہ بھارت اس خطے میں انفرسٹریکچر کو مضبوط کرنے میں لگا ہوا ہے۔ موجودہ یوپی اے سرکار کو اس مسئلے کے حل میں یہ آسانی ہوگی کہ اسے لڑنا نہیں پڑے گا۔ وہ برسوں تک چینیوں کے خود لوٹ جانے کی راہ دیکھے۔سمڈرنگ علاقے میں آئے چینی فوجی 7 سال بعد لوٹے تھے۔اب موجودہ چینی دراندازی کے بارے میں بھی بھارت کو یہی تسلی تھی کہ وہ اس بحران کے سلجھنے کا صبر سے انتظار کرے اور اسی حکمت عملی پر وہ عمل پیرا تھا اور چینی فوجیوں کے چلے جانے سے اس کی یہ ڈپلومیسی کافی حد تک کامیاب رہی۔موجودہ معاملے کو لمبا کھینچنے کا ذمہ میڈیا پر تھونپنے کے پیچھے یہ ہی ایک تنگ نظری ہے۔ اس سلسلے میں منموہن سنگھ سرکار یہ نہیں دیکھ رہی کہ ایل او سی پر تنازعہ روکنے کے چارچار سمجھوتے اور یہاں تک کہ ابھی جنوری میں کئے گئے اقدامات کو چین ہی تلانجلی دے رہا ہے۔ ابھی فوج کی یونیفائڈ کمان میں وزیر دفاع نے دوہرایا ہے کہ سارے متبادل کھلے ہیں۔ وہ پچھلے20 دنوں سے یہ ہی بات کہتے آرہے ہیں۔ اب یہ معاملہ لوکل نہیں رہا جسے علاقائی کمانڈرسلجھانے میں اہل ہوں۔چین کے ذریعے تمبو گاڑنے کے پیچھے اس کی دفاعی پالیسی کا حصہ ہے۔ وہاں سے قراقرم پر نظر رکھی جاسکتی ہے اور ہر ایک موسم کے مطابق قومی سطح پرنگرانی کی جاسکے۔ چین یہاں جمنے کے نظریئے سے آیا تھا۔ یہ ہمالیہ خطے میں بھارت کی گھیرا بندی کی ہی ایک کڑی ہے۔ ایک دشمن نظریئے سے موجود چین بھارت کو حکمت عملی کی شکل سے ہمیشہ الجھن میں رکھے گا۔ اگر چین یہاں سے نہیں ہٹتا یا نہیں ہٹایا جاتا تو بھارت کے لئے بھی اس سے نمٹنا ممکن نہیں تھا۔ ڈی بی او کی جغرافیائی اہمیت کے نقطہ نظر سے دفاعی موافقت نہ ہونے کے باوجود بھارت سرکار کی ڈپلومیٹک ناکامی کا ہی نتیجہ ہے کہ چین بھارت کے دیگر پڑوسی ملکوں نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، میانمار اور پاکستان میں اپنی دخل اندازی بڑھاتا جارہا ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میزائل اسٹور کرنے کے لئے 22 سرنگیں بنانے کی کوشش میں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ چین بھارت پر حملہ شاید نہ کرے لیکن بھارت سرکار کی لاچاری کی وجہ سے زمین ہتھیانے سے وہ چوکے گا نہیں۔ بھارت کوجوابی کارروائی کرنی ہوگی تاکہ وہ آئندہ دراندازی کی ایسی کوئی حرکت نہ کرے اس کے لئے قورت ارادی ، ہمت اور عزم کی ضرورت ہے جو اس یوپی اے سرکار میں دکھائی نہیں پڑتی۔اب چین نے اپنی فوجیں ہٹا لی ہیں لیکن بھارت اور چین اس فیس آف پوائنٹ سے ایک ساتھ ہٹنے کو راضی ہوگئے ہیں حالانکہ ابھی یہ صاف نہیں ہوا کہ چینی فوجیں واپس اسی جگہ چلی گئی ہیں جہاں پر وہ 15 اپریل سے پہلے موجود تھیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں