سونیا گاندھی کا جارحانہ رویہ :نہ استعفیٰ دیں گے اور نہ جواب

کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالے اور سی بی آئی جانچ میں سرکاری مداخلت کو لیکر ایک بار پھر پارلیمنٹ میں ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اس اشو پر حکمراں اور اپوزیشن پوری طرح آمنے سامنے کھڑا ہوگیاہے۔ جارحانہ تیور اپناتے ہوئے بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا نے وزیر اعظم، وزیر قانون سے استعفیٰ مانگا تو یوپی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے بھی اسی جارحانہ انداز میں خود سامنے آکر مطالبے کو مسترد کردیا۔ پارلیمنٹ میں اٹھی پی ایم اور قانون منتری کے استعفے کی مانگ کو سونیا گاندھی نے مسترد کرتے ہوئے کہا انہیں استعفیٰ مانگنے دو،آپ ان کو جواب دیں، اشارہ ملتے ہیں پارلیمانی وزیر کمل ناتھ نے بھی کہا بھاجپا تو ہر وقت کسی نہ کسی کا استعفیٰ مانگتی ہی رہتی ہے۔ ہمیں سونیا گاندھی کے ہٹلری فرمان پر تعجب نہیں ہوا۔ جب تک شری مکھرجی کانگریس کے لیڈر تھے اور سنکٹ موچک بن کر وہ اپوزیشن سے ٹکراؤ سے بچا لیا کرتے تھے۔ کچھ اپوزیشن کی بات کو سمجھا بجھا کر ختم کرادیا کرتے تھے لیکن جب سے وہ صدر بنے ہیں اور سونیا گاندھی نے پارلیمنٹ میں پارٹی اور سرکار کی کمان سنبھالی ہے تو اسی طرح کے ہٹلری انداز میں بولتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح 2 جی گھوٹالے میں بھی انہوں نے ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔جب گھوٹالہ الاٹمنٹ سامنے آیا تب بھی یہی کیا اور آخر کار تازہ ٹکراؤ اس حد تک کیوں پہنچا؟ سپریم کورٹ کی نگرانی میں سی بی آئی نے جو جوابی رپورٹ تیار کی تھی اسے سپریم کورٹ میں داخل ہونے سے پہلے ہی وزیر قانون اشونی کمار نے منگوالیا اور اس میں کچھ ترامیم کیں۔ ایسا الزام بھاجپا نے لگایا ہے۔ پہلے تو سرکار اسے ماننے کو تیار نہیں تھی لیکن بعد میں یہ مانا کے وزیر نے رپورٹ کو دیکھا ہے۔ پارلیمانی وزیر کملناتھ نے پھر کہا اشونی کمار نے تو رپورٹ اس لئے منگائی تھی تاکہ اس میں کوئی تکنیکی غلطی نہ ہو۔ ہمیں نہیں پتہ کے سی بی آئی میں ایسے افسر بیٹھے ہیں جنہیں گرامر بھی نہیں آتی؟ خیر جب اپوزیشن نے بہت دباؤ ڈالا تو سرکارا یوان میں اس پر بحث کرانے کو تیار ہوگئی۔راجیہ سبھا میں جب یہ معاملہ آیا تو وزیر قانون اشونی کمارجو اس وقت تک ایوان میں بیٹھے تھے عین موقعے پر نکل لئے اور اس پر بحث نہ ہوسکی۔ اب اپوزیشن اگر وزیر اعظم سے یہ کہہ رہا ہے کہ اشونی کمار کو برخاست کرو تو اس میں کیا غلط ہے؟ اگر پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ ہوتی ہے تو اس کی سیدھی ذمہ داری حکمراں فریق پر آتی ہے۔ کوئلہ الاٹمنٹ میں پارلیمنٹ میں گھری سرکار کو سپریم کورٹ میں جواب دینا پڑے گا۔ سرکار کی مصیبتیں سپریم کورٹ میں بھی بڑھ سکتی ہیں۔ تازہ واقعہ کو دیکھتے ہوئے سی بی آئی کٹہرے میں کھڑی دکھائی پڑرہی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو مطمئن کرنا چاہے گی اور معاملے کی ابتدائی جانچ میں ملے ثبوتوں کیساتھ اور چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی ہے۔ کسی کو بچانے کی کوشش کررہی ہے اس لئے وہ بچاؤ کے رخ اختیار کرے گی۔ ممکن ہے سپریم کورٹ کہے کہ آپ دونوں رپورٹ پیش کریں اگر کوئی ترمیم کی گئی ہے؟ سپریم کورٹ دونوں رپورٹوں کی جانچ کر طے کرسکے گی کے رپورٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا نہیں؟ سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنگھ کورٹ کو بتا چکے ہیں کہ کوئلہ الاٹمنٹ میں بے قاعدگیوں کے ساتھ رپورٹ کسی سے شیئر نہیں کی گئی ہے۔اب عدالت میں کیا موقف لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اس کے علاوہ بھی سرکار کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ کوئلہ وزارت کی جانب سے عدالت میں داخل حلف نامے میں الاٹمنٹ عمل میں شفافیت اپنائے جانے کو لیکر کوئی پختہ دلیل نہیں دی گئی ہے۔ سرکار نے خود مانا ہے کہ الاٹ شدہ 218 کول بلاکوں میں سے ابھی تک محض35 ہی کوئلہ الاٹمنٹ پیداوار شروع ہوسکتی ہے۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ میں ہوئی دھاندلیوں کا معاملہ ویسے بھی سپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ معاملے پر 30 اپریل کو سماعت ہونی ہے۔ وزارت نے الاٹمنٹ کارروائی کی تفصیل پیش کرتے ہوئے ساری ذمہ داری ریاستی سرکاروں اور اسکریننگ کمیٹوں کے ماتھے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے جن کی سفارشوں پر الاٹمنٹ کیا گیا۔ اس طرح سرکار نے ایک ساتھ تین مورچے کھول دئے ہیں۔ سرکار سپریم کورٹ اور ریاستی سرکاریں و سونیا گاندھی کہتی ہیں نہ استعفیٰ دیں گے اور نہ جواب دیں گے اور نہ ہی لیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟