کیا کبھی ان ٹریفک جام سے چھٹکارا بھی ملے گا؟

جمعرات کی شام کو دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میدان میں ہوئے آئی پی ایل میچ نے علاقے کی تمام سڑکوں پر جام لگادیا ہے۔ آئی ٹی او، دہلی، راج گھاٹ، بہادر شاہ ظفر مارگ سمیت کئی راستوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں۔ راجدھانی میں پانچ سالہ بچی سے درندگی کے خلاف لڑکوں نے آئی ٹی او چوک جام کئے رکھا۔ اب دہلی کے شہریوں کی زندگی کا یہ ٹریفک جام حصہ بن گیا ہے۔ حالانکہ ٹریفک پولیس نے ٹریفک کو بہتر بنائے رکھنے کے لئے انتظامات کئے لیکن پھر بھی ان جام سے چھٹکارا نہیں مل رہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو تب ہوتا ہے جب چوراہوں پر ٹریفک سگنل اور لائٹیں نہیں جلتیں۔ حیدر آباد انسٹی ٹیوٹ کا دعوی ہے کہ دہلی پولیس کے غیر ارادی فیصلوں کے سبب ہر سال نہ صرف تین ہزار کروڑ روپے برباد ہورہے ہیں بلکہ آلودگی میں بھی بھاری اضافہ ہورہا ہے۔ دہلی کی لال بتیوں پر سروے انسٹیٹیوٹ نے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کو یہ رپورٹ سونپی ہے۔ بربادی کی وجہ لال بتیوں پر بے وجہ پیٹرول ، ڈیزل پھونکنا ہے۔ اس پرلگام ٹائمر لگا کر کیا جاسکتا ہے۔ 730 1لال بتیوں میں سے 1198 میں ٹائمر نہیں لگے ہوئے ہیں۔2006ء میں محض200 کروڑ روپے کی اسکیم پر مجوزہ لاگت بڑھ کر 1 ہزار کروڑ روپے پہنچ گئی وہیں اب تک گاڑیوں کے لال بتیوں پر اسٹاٹ رہنے سے اب تک15 ہزار کروڑ روپے کا ایندھن بیکار جل چکا ہے۔ لیکن ابھی تک کسی ایجنسی نے اس کی ذمہ داری نہیں لی۔ ٹائمر نہ لگے ہونے سے روزانہ قریب8 کروڑ روپے کا ایندھن بیکار ہوتاہے ۔ سال بھر میں اس کی اعدادو شمار 3 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ جاتا ہے یعنی ریڈ لائٹ پر دیر تک کھڑا رہنے سے اتنے روپے کا دیش کو نقصان ہورہا ہے۔ ماہرین سفارش کرتے ہیں کہ اگر ریڈ لائٹ پر30 سیکنڈ سے زیادہ دیری ہوتی ہے توا پنی گاڑی کا انجن بند کرلیں۔ سروے کی بنیاد پر 37 ہزار کلو گرام سی این جی جلتی ہے۔1 لاکھ30 ہزار لیٹر ڈیزل اور 4 لاکھ10 ہزار لیٹر پیٹرول آئی ٹی او، دہلی گیٹ، شام لال کالج، آزاد پور جو زیادہ مصروف ترین علاقے ہیں ان میں ایندھن جلتا ہے۔جاموں کی بات کو چھوڑیئے دہلی این سی آر میں چل رہی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ ان میں سے قریب82 فیصد گاڑیاں خراب ہیں اور بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے چل رہی ہیں۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ لال بتی پر سب سے آگے کھڑا آٹو گرین لائٹ ہونے پر بھی فوری طور پر اسٹارٹ نہیں ہوتا جام لگنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ یہ ہی نہیں انہیں چلانے والے زیادہ تر ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیوننگ لائسنس بھی نہیں ہیں۔ ایسوچیم کے ذریعے کرائے گئے سروے میں اس کا انکشاف ہوا ہے۔ دہلی میں چلتی بس میں طالبہ کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کے واقعے کے بعد یہ سروے کرایا گیا تھا ۔ اس کے تحت 200 گاڑیوں کی جانچ کی گئی اندازہ ہے کہ اس وقت دہلی میں65 لاکھ سے زیادہ گاڑیاں ہیں۔65 ہزار آٹو روز دہلی میں دوڑتے ہیں۔ 5884 بسیں ہیں،4 ہزار گرامین سیوا دوڑتیں ہیں۔2 ہزار چارٹرڈ بسیں ہیں۔ راجدھانی میں حالانکہ دہلی سرکار نے درجنوں فلائی اوور بنائے ہوئے ہیں لیکن بڑھتی گاڑیوں کی تعداد نے ان کا پورا فائدہ نہیں ہونے دیا فائدہ تو ہوا لیکن اتنا نہیں۔اصل مسئلہ ہے روز نئی گاڑیوں کا بڑھنا۔ دہلی این سی آر میں اتنی سڑکیں نہیں ہیں جو اتنی گاڑیوں کو ٹھیک ٹھاک چلنے میں مددگار ثابت ہوسکیں۔تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان جاموں سے کوئی نجات نہیں ملنے والی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟